دل بننے کے لمحات کو پہلی بار انتہائی تفصیل سے ٹائم لیپس تصاویر میں قید کر لیا گیا ہے جو ایک حیران کن سائنسی کامیابی ہے۔
ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ چوہے کے ایمبریو (جنین) میں دل کے خلیے خودبخود منظم ہو کر دل جیسی شکل اختیار کرنے لگتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تکنیک پیدائشی دل کے نقائص کو بہتر سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے جو ہر 100 میں سے تقریباً ایک بچے کو متاثر کرتے ہیں۔
صرف 7 دن میں مائیگرین سے نجات کا آسان طریقہ
یونیورسٹی کالج لندن کے گریٹ اورمنڈ اسٹریٹ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ سے تعلق رکھنے والے مطالعے کے سینئر محقق ڈاکٹر کینزو ایوانووچ جو کہتے ہیں کہ ’یہ پہلا موقع ہے کہ ہم نے میملز (دودھ پلانے والے جانوروں) کی افزائش کے دوران دل کے خلیوں کو اتنی قریب سے اور اتنی دیر تک دیکھا ہے۔ ہمیں پہلے یہ یقینی بنانا تھا کہ ایمبریوز کو طویل عرصے تک لیبارٹری میں بڑھایا جا سکے، چند گھنٹوں سے لے کر چند دنوں تک، اور جو ہم نے دیکھا وہ ہماری توقعات سے بالکل مختلف تھا۔‘
یہ ویڈیوز ”ایڈوانسڈ لائٹ شیٹ مائیکرو اسکوپی“ نامی ٹیکنالوجی سے حاصل کی گئیں جس سے سائنس دانوں کو یہ دیکھنے کا موقع ملا کہ ایمبریو کس طرح اس اہم مرحلے یعنی گیسٹریکولیشن سے گزرتا ہے جہاں مختلف اقسام کے خلیے بننا شروع ہوتے ہیں اور جسم کے بنیادی رخ متعین ہوتے ہیں۔
اس کے فوراً بعد دل کے پٹھوں کے خلیے (cardiomyocytes) ایک بڑی نالی (ٹیوب) کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جو آگے چل کر دل کی دیواروں اور چیمبرز میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ اگر اس عمل میں کوئی خرابی ہو جائے تو بچے میں پیدائشی دل کا سوراخ جیسا نقص پیدا ہو سکتا ہے۔
ٹوٹے دل کی مرمت کرنے والا ”محبت کا ہارمون“
تحقیق میں شامل ٹیم نے فلوروسینٹ مارکرز کے ذریعے دل کے خلیوں کو خاص رنگوں میں روشن کیا تاکہ انہیں واضح طور پر دیکھا جا سکے۔ ہر دو منٹ بعد تصاویر لی گئیں جو 40 گھنٹے تک خلیوں کی حرکت، تقسیم اور دل کی ابتدائی شکل اختیار کرنے کا عمل دکھاتی ہیں۔
سائنس دانوں نے دیکھا کہ گیسٹریکولیشن کے عمل کے ابتدائی دنوں (تقریباً چھٹے دن) میں صرف دل میں حصہ لینے والے خلیے تیزی سے نمودار ہوئے اور منظم انداز میں حرکت کرنے لگے۔ یہ خلیے بے ترتیب حرکت کے بجائے مخصوص راستے اختیار کرتے دکھائی دیے چاہے وہ دل کے وینٹریکلز (خون پمپ کرنے والے چیمبر) ہوں یا ایٹریا (خون داخل ہونے کی جگہ)۔
ڈاکٹر ایوانووچ نے کہا، ’ہماری تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ دل کے خلیوں کی تقدیر کا تعین اور ان کی سمت کا انتخاب موجودہ ماڈلز کی نسبت کہیں پہلے ہو جاتا ہے۔ یہ دریافت دل کی تشکیل کے بارے میں ہماری بنیادی سمجھ کو بدل دیتی ہے کیونکہ جو ہمیں پہلے بے ترتیب خلیاتی حرکت لگتی تھی دراصل وہ ایک منظم نظام کا حصہ ہوتی ہے جو درست دل کی تشکیل کو یقینی بناتی ہے۔‘
مصنوعی دل کے ذریعے 100 دن زندہ رہنے والا پہلا شخص کون؟
محققین کا کہنا ہے کہ یہ مشاہدات پیدائشی دل کی بیماریوں کی بہتر تشخیص اور علاج کے ساتھ ساتھ لیبارٹری میں دل کا ٹشو تیار کرنے کے عمل کو بھی آگے بڑھا سکتے ہیں جو کہ ریجنریٹیو میڈیسن کے لیے نہایت اہم ہے۔