’گولا گنڈا‘ جسے انگریزی میں Snow Cone یا Shaved Ice کہا جاتا ہے، ایک مشہور اور مقبول ٹھنڈی مٹھاس ہے جو خاص طور پر برصغیر، مشرقی ایشیا، اور لاطینی امریکا میں بہت پسند کی جاتی ہے۔ اس کا بنیادی تصور ’برف کو باریک پیس کر اس پر مختلف فلیورز کی چاشنی ڈالنا‘ ہے۔
گولا گنڈا کی ایجاد کسی ایک فرد یا قوم سے منسوب نہیں کی جا سکتی، بلکہ یہ مختلف خطوں میں الگ الگ ادوار میں سامنے آیا، مگر اس کی جڑیں جاپان اور ایران جیسے ممالک تک بھی جاتی ہیں۔ آئیے کچھ تاریخی پس منظر دیکھتے ہیں۔
گیارہویں صدی میں جاپان میں Kakigori صدیوں سے مقبول ہے، جہاں برف کو باریک کر کے اس پر میٹھے شربت یا دودھ ڈالا جاتا ہے۔ شروع میں یہ صرف اشرافیہ کے لیے مخصوص تھا کیونکہ برف ذخیرہ کرنا مشکل تھا۔ اسکے علاوہ ایران اور مشرقِ وسطیٰ میں یہ ’فالودہ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایران میں یہ فالوودہ جیسا ٹھنڈا میٹھا موجود تھا جس میں برف، گلاب کا عرق، اور شیریں فلیورز ہوتے تھے۔ جبکہ برصغیر میں یہ گولا گنڈا کہلایا۔
یہ برف کا رس بھرا گولا دنیا بھر میں مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے، مثلا امریکہ میں Snow Cone، ہونولولو میںHawaiian Shave Ice، تھائی لینڈ میں Nam Kang Sai اور میکسیکو میں Raspedo کہلاتا ہے۔
ٹھنڈا دودھ تیزابیت کوکم کرتا ہے یا بڑھاتا ہے؟ ماہرین کا انکشاف
برصغیر میں گولا گنڈا کا آغاز غالباً برطانوی دور یا اس سے قبل ہوا، جب پہاڑی علاقوں سے برف نیچے لائی جاتی تھی۔ اور20 ویں صدی میں برف کی دستیابی آسان ہونے کے بعد یہ ہر بازار کا حصہ بن گیا۔
اسکے اجزاء میں برف، رنگین شربت (لال، سبز، نارنجی)، کبھی کبھار دودھ، روح افزا، یا فلیورڈ کریم بھی شامل کی جاتی ہے۔ کراچی، لاہور، دہلی، ممبئی جیسے چھوٹے بڑے شہروں میں گولا گنڈا بہت مشہور ہوا۔
روم کے بادشاہ نیرو (Nero) کا گولا گنڈا یا اس جیسے کسی ٹھنڈے میٹھے مشروب سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں، لیکن تاریخ میں ایک دلچسپ واقعہ ضرور ملتا ہے جو گولا گنڈے جیسے مشروبات کی ابتدائی شکل کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
شدید گرمی میں ٹھنڈے ٹھنڈے مشروبات کی بہار
نیرو رومن سلطنت کا پانچواں بادشاہ تھا، جو 54 AD سے 68 AD تک حکومت کرتا رہا (یعنی 27 BC میں نہیں بلکہ 1st century AD میں اس کا دور تھا)۔ وہ اپنے عجیب و غریب ذوق، موسیقی، فن اور عیش و عشرت کے شوق کی وجہ سے مشہور تھا۔
تاریخ دانوں کے مطابق، روم کا بادشاہ ’نیرو‘ گرم موسم میں پہاڑوں سے برف منگواتا تھا اور اس پر پھلوں کا رس یا شہد ڈلوا کر کھاتا تھا۔ یہ عمل اُس زمانے میں بہت نایاب اور شاہی شان کے مطابق سمجھا جاتا تھا کیونکہ برف کو پہاڑوں سے لانا ایک محنت طلب اور مہنگا کام تھا۔ اور شہد اور پھلوں کا استعمال اس زمانے کے لیے خاص اور قیمتی تصور کیا جاتا تھا۔ یہ بات گولا گنڈا یا شیوڈ آئس کی ابتدائی اور اعلیٰ طبقاتی شکل کے طور پر بھی جانی جاتی ہے۔
گرمیوں میں بیڈروم کو بغیر ایئر کنڈیشن ٹھنڈا رکھنے کی ٹپس
ہم کہہ سکتے ہیں کہ روم کے بادشاہ نیرو نے ’گولا گنڈا‘ ایجاد نہیں کیا، لیکن اس نے برف پر میٹھا سیرپ ڈال کر جو شاہی مشروب بنایا، وہی خیال آگے چل کر کاکی گوری (جاپان)، راسپادو (میکسیکو)، اور بالآخر گولا گنڈا (برصغیر) کی شکل میں عوامی مشروب بن گیا۔ نیرو کی کہانی سے یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ برف پر ذائقہ دار شربت ڈال کر ٹھنڈی مٹھاس کھانے کا تصور ہزاروں سال پرانا ہے۔