ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ مصنوعی ذہانت (AI) کے ماڈلز جب بغیر انسانی مداخلت کے آپس میں بات چیت کرتے ہیں تو وہ خود بخود انسانوں جیسے سماجی رویے اور زبان کے اصول اپنا لیتے ہیں۔
یہ تحقیق سٹی سینٹ جارجز، یونیورسٹی آف لندن اور آئی ٹی یونیورسٹی کوپن ہیگن کے اشتراک سے کی گئی جس میں یہ دیکھا گیا کہ جب چیٹ جی پی ٹی جیسے بڑے لینگوئج ماڈل (LLM) آپس میں گروپ کی شکل میں بات کرتے ہیں تو وہ انسانوں کی طرح نئے الفاظ اور سماجی اصول بنا لیتے ہیں۔
تحقیق کے مرکزی مصنف ایریل فلنٹ آشری، جو سٹی سینٹ جارجز میں ڈاکٹریٹ کے محقق ہیں، نے کہا کہ ان کا کام روایتی AI تحقیق سے مختلف ہے کیونکہ اس نے AI کو ایک سماجی اکائی کے طور پر دیکھا، نہ کہ اکیلے کام کرنے والی مشین کے طور پر۔
چیٹ جی پی ٹی بھی انسانوں کی طرح دباؤ اور اضطراب کا شکار ہونے لگا
انہوں نے کہا: ”زیادہ تر تحقیق نے اب تک LLMs کو الگ تھلگ انداز میں دیکھا ہے لیکن اصل دنیا میں AI سسٹمز زیادہ تر باہمی تعامل میں کام کریں گے۔ ہم یہ جاننا چاہتے تھے کہ کیا یہ ماڈلز اپنے رویے کو سماجی اصولوں میں ڈھال سکتے ہیں؟ جواب ہاں میں ملا۔“
تحقیق میں 24 سے 100 کے درمیان AI ماڈلز کے گروپ شامل کیے گئے۔ ہر تجربے میں دو AI ایجنٹس کو ایک دوسرے سے جوڑ کر ”نام“ منتخب کرنے کا کہا گیا۔ اگر دونوں کا انتخاب ایک جیسا ہوتا تو انہیں انعام دیا جاتا اور اگر مختلف ہوتا تو انہیں نقصان ہوتا اور دوسرے کا انتخاب دکھایا جاتا۔
یہ AI ایجنٹس اس بات سے لاعلم تھے کہ وہ ایک بڑے گروپ کا حصہ ہیں اور انہیں صرف اپنی حالیہ بات چیت یاد رہتی تھی۔ اس کے باوجود ان میں خود بخود ایک مشترکہ نام رکھنے کا اصول ابھرا جو انسانی معاشرتی زبان کی مشابہت رکھتا ہے۔
اے آئی ٹیکنالوجی اب شادی شدہ جوڑوں کی جھگڑے ختم کرائے گی
پروفیسر آندریا بارونکیلی جو اس تحقیق کے سینئر مصنف ہیں، نے کہا: ”یہ ایجنٹس کسی رہنما کی نقل نہیں کر رہے تھے بلکہ ہر ایک گروپ ذاتی طور پر نام پر متفق ہونے کی کوشش کر رہا تھا، بغیر اس بات کے کہ انہیں پوری تصویر معلوم ہو۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ’سپیم‘ کا لفظ بغیر کسی باقاعدہ تعریف کے ایک عمومی اصطلاح بن گیا۔“
تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا کہ کچھ اجتماعی تعصبات خود بخود تشکیل پاتے ہیں جنہیں کسی ایک ایجنٹ سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ ایک اور تجربے میں یہ بھی پایا گیا کہ چند AI ایجنٹس پر مشتمل چھوٹا گروپ بڑے گروپ کو ایک نیا اصول اپنانے پر مجبور کر سکتا ہے، جیسا کہ انسانی سماج میں ایک چھوٹی مگر پُرعزم اقلیت بڑے سماجی رویوں میں تبدیلی لا سکتی ہے۔
مصنوعی ذہانت نے ریڈ لائن پار کرلی، اپنے جیسے دوسرے بنانے شروع کردئے
بارونکیلی نے کہا کہ یہ تحقیق AI سیفٹی کے نئے امکانات کھولتی ہے اور ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ AI ہمارے ساتھ کیسے میل جول رکھے گا۔ انہوں نے مزید کہا: ”ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو رہے ہیں جہاں AI صرف بات نہیں کرے گا بلکہ اتفاق، اختلاف اور مشترکہ سماجی اصولوں پر بات چیت کرے گا بالکل ہماری طرح۔“