سائنسدانوں کو ایک چونکا دینے والی دریافت ہوئی ہے جس میں بن مانسوں کو انسانوں جیسی عادات اپناتے ہوئے دیکھا گیا، جن میں وہ ایک دوسرے کا علاج کرتے پائے گئے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے، جو مقامی ٹیم کے ساتھ بدونگو جنگل میں کام کر رہے تھے، ایک ایسا لمحہ کیمرے میں قید کیا جب چمپانزی ایک دوسرے کے زخموں اور بیماریوں کا علاج کرنے کے لیے جڑی بوٹیوں اور دیگر جنگلی مواد کا استعمال کرتے پائے گئے۔

یہ تحقیق گزشتہ سال کی دریافتوں کے بعد سامنے آئی جن کے مطابق چمپانزی چند مخصوص پودوں کو تلاش کرتے ہیں اور خود علاج کے لیے انہیں کھاتے ہیں۔ اب ماہرین کا کہنا ہے کہ چمپانزی کو بعض بیماریوں اور چوٹوں کا علاج کرنے کا طریقہ معلوم ہو چکا ہے۔

گاڑیوں سے بھی تیز رفتار بطخ کا چالان ہوتے ہوتے رہ گیا

دلچسپ بات یہ ہے کہ چمپانزی صرف اپنے قریبی رشتہ داروں کا ہی علاج نہیں کرتے، بلکہ وہ دوسرے چمپانزیوں کو بھی علاج فراہم کرتے ہیں۔ سائنسدانوں نے دہائیوں کی مشاہدات کو جمع کرکے ”فاریسٹ فرسٹ ایڈ“ کے مختلف طریقوں کا ایک کیٹلاگ تیار کیا ہے۔

انسان کے ڈی این اے کی 98 فیصد مشابہت چمپانزی کے ساتھ بتائی جاتی ہے، حالیہ تحقیق میں بن مانسوں میں انسانی عادات بھی دیکھنے میں آئی ہیں۔

خاص فارمولہ ایجاد: چاکلیٹ کے بسکٹ کھائیں اور وزن گھٹائیں

یہ تحقیق ”فرنٹیئرز ان ایکولوجی اینڈ ایولوشن“ جرنل میں شائع کی گئی ہے جس میں بتایا گیا کہ ان جانوروں نے قدرتی جڑی بوٹیوں کا استعمال کر کے بیماریوں کا علاج کرنے کی انسانوں جیسی خصوصیت اپنائی ہے۔

محققین کے مطابق ان کی طویل عمر اور صحت کا ایک حصہ شاید ان کی اپنی مداخلت اور دواؤں کا نتیجہ ہو سکتا ہے، جیسے کہ انسانوں میں ہوتا ہے۔

رہنمائی کرنے والی محقق ایلوڈی فری مین نے وضاحت کی کہ “چمپانزیوں کے پاس ایک پورا سلوک کا ذخیرہ ہے جس کا وہ شکار یا زخمی ہونے پر قدرتی ماحول میں استعمال کرتے ہیں۔

سمندری جانور چلتے پھرتے ایک دوسرے سے ’ہیلو ہائے‘ کیسے کرتے ہیں؟

”ان میں سے کچھ جڑی بوٹیاں وہ استعمال کرتے ہیں جو یہاں موجود ہیں۔ چمپانزی انہیں اپنے زخموں پر لگاتے ہیں یا انہیں چباتے ہیں، اور پھر چبایا ہوا مواد کھلے زخم پر لگاتے ہیں۔“

سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میں بن مانس کو دکھایا گیا جو جنگل میں موجود کسی پتے کو چبا کر اپنی زخمی ماں کا علاج کر رہا ہے۔

سب سے عجیب بات یہ تھی کہ سائنسدانوں نے دیکھا کہ چمپانزی ایسے جانوروں کے زخموں کا بھی علاج کر رہے ہیں جن سے ان کا کوئی رشتہ نہیں تھا۔ یہ اس پچھلی تھیوری کو مزید تقویت دیتا ہے کہ چمپانزی دوسرے انواع اور ایک دوسرے کے لیے ہمدردی اور احساس محسوس کرسکتے ہیں۔

More

Comments
1000 characters