شاری لائیڈ ایک رائٹر ہیں، جب وہ نوجوان تھیں اور کالج جانے کی تیاری کر رہی تھیں تو انہوں نے فخر کے ساتھ اپنی مزدا 323 ہیچ بیک پر ایک وینیٹی نمبر پلیٹ لگوائی جس پر ان کا پسندیدہ لفظ مختصر صورت میں لکھا تھا: ”Whatever“ (جو بھی ہے)۔
لیکن اب کئی دہائیوں بعد شاری اس لفظ کو ایک بالکل مختلف انداز سے دیکھتی ہیں۔ وہ مانتی ہیں کہ یہ ایک ایسا بے دلی سے ادا کیا گیا جملہ ہے جو کسی بھی گفتگو کو بند کر دیتا ہے اور رشتوں میں دوری پیدا کرتا ہے۔ شاری جو کہ ”The 50/50 Friendship Flow“ جیسی دوستی پر مبنی کتابوں کی مصنفہ ہیں کہتی ہیں کہ ”whatever“ وہ واحد لفظ ہے جو مضبوط سے مضبوط دوستی کو بھی توڑ سکتا ہے۔ اب وہ خود کو یہ لفظ بولنے سے روکتی ہیں تاکہ تعلقات بہتر رہیں۔
گھر بیٹھے کرپٹو مائننگ کیسے کی جائے، کونسا ہارڈوئیر اور سافٹ وئیر درکار ہے؟ طریقہ جانئے
شاری کے مطابق ”whatever“ ایک ”لڑائی والا لفظ“ ہے اور ایک غیر سنجیدہ رویے کی نمائندگی کرتا ہے۔ وہ کہتی ہیں: ”یہ لفظ فوراً توجہ حاصل کر لیتا ہے اور اس میں کچھ تحقیر آمیز محسوس ہوتا ہے۔“
جب کسی بحث کو ”whatever“ کہہ کر ختم کیا جاتا ہے تو اس سے فضا میں کشیدگی بڑھ جاتی ہے، چاہے مخاطب کوئی دوست ہو، خاندان کا فرد، یا کسٹمر سروس کا ملازم۔ یہ نہ صرف غیر واضح اور نفرت انگیز ہوتا ہے بلکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کو سامنے والے کی پرواہ نہیں۔ یہ گفتگو کو بند کر دیتا ہے جیسے کہ ”چپ ہو جاؤ“ کہہ دیا ہو۔ شاری کہتی ہیں: ”یہ بہت آسانی سے نکلا ہوا راستہ ہے لیکن یہ بات چیت کو آگے نہیں بڑھاتا۔“
اکثر لوگ جب ”whatever“ سنتے ہیں تو ایسا ردعمل دیتے ہیں جیسے انہیں تھپڑ مارا گیا ہو۔ شاری کہتی ہیں کہ یہ لفظ سننے والے کو جسمانی جھٹکا دیتا ہے اور اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اُس کی عزتِ نفس مجروح ہوئی ہو۔
شادی شدہ جوڑوں کا لڑائی جھگڑا کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
شاری ایک حالیہ واقعے کا ذکر کرتی ہیں جب ان کے اپنے بوائے فرینڈ سے بحث ہو گئی تھی اور وہ ”whatever“ کہنے ہی والی تھیں۔ مگر انہوں نے رک کر کہا: ”میں اس وقت اس بارے میں بات نہیں کر سکتی۔“
کسی بھی سخت لمحے میں آپ بھی ایسے الفاظ استعمال کر سکتے ہیں جو وقت مانگیں جیسے: ”مجھے ایک لمحہ درکار ہے“۔ جب جذبات عروج پر ہوں تو خود کو روکنے کے لیے یہ الفاظ مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ شاری کہتی ہیں: ”چاہے آپ کو غصہ دلانے والا دوسرا شخص ہو لیکن اس لمحے میں کچھ ایسا کہنا جس کا بعد میں افسوس ہو فائدہ مند نہیں ہوتا۔“
یہ ردعمل سیکھنے والی چیز ہے اور وقت کے ساتھ بہتر ہو جاتی ہے۔ شاری کہتی ہیں: ”جتنا ہم اس ردعمل کی مشق کریں گے خاص طور پر جب کوئی ہماری بات کاٹ رہا ہو یا ہمیں غصہ دلائے، اتنا ہی ہم بہتر جواب دے سکیں گے۔“
کیا آپ نے کبھی ’ڈیجا وو‘ کا اُلٹ تجربہ کیا ہے؟
اور صرف آپ ہی نہیں آپ کا سامنا کرنے والا شخص بھی شاید وقفے کا محتاج ہو۔ شاری کے مطابق ”یہ آپ کو دوبارہ کنٹرول میں لے آتا ہے۔“ اب جب وہ اپنی 50 کی دہائی میں ہیں تو وہ کہتی ہیں کہ اگر وہ نئی وینیٹی پلیٹ لیتیں تو اس پر ایک ہی لفظ ہوتا: ”سانس لو“ (Breathe)۔