کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ صرف ٹھنڈا پانی پینے سے دانتوں میں چبھتا ہوا درد کیوں محسوس ہوتا ہے؟ تازہ تحقیق کے مطابق، ہمارے دانت اصل میں ’چبانے‘ کے لیے نہیں بلکہ ’محسوس کرنے‘ کے لیے وجود میں آئے تھے۔ اور یہ ارتقائی کہانی تقریباً 50 کروڑ سال پرانی ہے!
ماہرین کا کہنا ہے کہ دانتوں کی ابتدا ایسے سخت چھوٹے ڈھانچوں سے ہوئی جنہیں اوڈونٹوڈز کہا جاتا ہے۔ یہ سب سے پہلے قدیم مچھلیوں کی بیرونی کھال (جیسا کہ زرہ بکتر) پر نمودار ہوئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کا پہلا کام خوراک چبانا نہیں بلکہ اردگرد کا احساس کرنا تھا، جیسے پانی کی حرکت، درجہ حرارت یا خطرہ۔
وہیل مچھلیوں کے گانوں کا انسانوں سے کیا تعلق ہے؟ جان کر سائنسدان حیران رہ گئے
آج بھی شارک، بلی مچھلی اور stingray جیسے آبی جانوروں کی جلد پر چھوٹے چھوٹے دانت ہوتے ہیں، جن میں نروس سسٹم پایا جاتا ہے، یعنی یہ ’احساس‘ کرتے ہیں۔
یونیورسٹی آف شکاگو کی محقق یارا ہریڈی نے قدیم جانوروں کی باقیات کو اسکین کر کے معلوم کیا کہ مچھلیوں کے دانتوں جیسے ساخت والے یہ اوڈونٹوڈز اصل میں کیڑوں اور جھینگوں جیسے جانوروں کے سینسی انگ (sensilla) سے ملتے جلتے تھے، جو ماحول کا احساس کرتے ہیں۔
زمین پر چلنے والی ”شارک مچھلی“ نے سائنس دانوں کو حیران کردیا
وقت کے ساتھ ساتھ، جب مچھلیوں میں جبڑے بنے، تو انہی نوکیلے احساس کرنے والے دانتوں نے چبانے کا فن بھی سیکھ لیا، اور یوں یہ اندرونی منہ میں منتقل ہو گئے۔ اب جب بھی آپ کے دانت میں ٹھنڈا لگے یا درد ہو، تو یاد رکھیں، یہ آپ کے ماضی کے سمندری اجداد کی زندہ یادگار ہے!
بڑی تباہی کی نشانی؟ سمندر کی تہہ میں رہنے والی ’قیامت کے دن کی مچھلی‘ ساحل پر آگئی
مختصرآپ کہہ سکتے ہیں کہ دانت سب سے پہلے مچھلیوں کی کھال پر ’محسوس کرنے‘ کے لیے آئے، بعد میں ارتقائی طور پر وہ منہ میں آ کر چبانے کے کام آئے، اورآج بھی کچھ مچھلیوں میں ایسے دانت موجود ہیں جو بیرونی سطح پر حساس ہوتے ہیں۔ درد یا حساسیت کا مطلب ہے کہ دانتوں میں اب بھی وہ پرانا سینسی نظام زندہ ہے۔