سائنس دانوں نے ایک ایسا شاندار فلکیاتی واقعہ ریکارڈ کیا ہے جو پہلے کبھی براہِ راست نہیں دیکھا گیا۔ ایک ”سویا ہوا“ بلیک ہول اچانک متحرک ہو گیا۔
یہ واقعہ کہکشاں SDSS1335+0728 میں پیش آیا، جو زمین سے تقریباً 300 ملین نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔
زمین سے سونا لیک ہونے لگا، سائنسدان چکرا گئے
گزشتہ دو دہائیوں سے یہ کہکشاں پرسکون اور غیر متحرک نظر آتی تھی، لیکن 2019 کے آخر میں اس کی چمک میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا۔
یہ کہکشاں جس کا مرکز ایک عظیم بلیک ہول ہے (جس کا وزن سورج کے مقابلے میں دس لاکھ گنا زیادہ ہے)، اچانک الٹرا وائلٹ، آپٹیکل، اور انفراریڈ روشنی خارج کرنے لگی اور 2024 کے اوائل میں اس نے ایکس رے شعاعیں بھی خارج کرنا شروع کر دیں۔
کولمبیا میں پراسرار دھاتی گولہ آسمان سے زمین پر آگرا، سائنسدان دیکھ کر حیران
سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ یہ بلیک ہول اپنے ارد گرد موجود گیس کو نگلنے لگا ہے، جس کے نتیجے میں یہ کہکشاں ایک“فعال کہکشانی مرکزActive Galactic Nucleus (AGN) “ میں تبدیل ہو گئی ہے۔
یورپی سدرن آبزرویٹری (ESO) کے سائنس دانوں نے مختلف دوربینوں، بشمول ویری لارج ٹیلی سکوپ (VLT)، کی مدد سے اس کہکشاں کا مشاہدہ کیا۔
اس تحقیق کی مرکزی کردار، ماہر فلکیات پاؤلا سانچیز سیازکا کہنا ہے کہ
”سوچیں کہ آپ ایک کہکشاں کو برسوں سے دیکھ رہے ہوں اور وہ ہمیشہ خاموش ہو، پھر اچانک اس کا مرکز تیز چمکنے لگے۔ یہ منظر معمول کی کسی روشنی کے مقابلے میں بالکل مختلف تھا۔“
جدید سائنس کے ذریعے پائیدار ملبوسات: بیکٹیریا سے بنے فائبرز جو اسٹیل سے آٹھ گنا مضبوط ہیں
یہ پہلا موقع ہے جب سائنس دانوں نے کسی بلیک ہول کو پرسکون حالت سے فعال ہوتے ہوئے براہِ راست دیکھا ہے۔
ماہر فلکیات کلاڈیو ریچی نے کہا کہ یہ ”فلکیاتی دیو“ عموماً چھپے رہتے ہیں، اور ان کا ایکٹو ہونا بہت نایاب ہے۔ اگرچہ بعض سائنس دان اس واقعہ کو ”Tidal Disruption Event“ یعنی کسی ستارے کا بلیک ہول کے ہاتھوں چیر پھاڑ، سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن اس کی مسلسل چمک کئی سالوں سے باقی ہے، جو اس مفروضے کو چیلنج کرتی ہے۔
یہ دریافت نہ صرف بلیک ہولز کے بڑھنے کے عمل کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے بلکہ کہکشاؤں کی ارتقاء اور نئی ستاروں کی پیدائش پر بھی روشنی ڈال سکتی ہے۔
ماہرین مستقبل میں ای ایس اوESO کی اگلی جنریشن کی ٹیلی سکوپس، جیسے ”ایکسٹریم لیارج ٹیلی سکوپ“ (ELT)، سے مزید ڈیٹا اکٹھا کرنے کی امید رکھتے ہیں تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ واقعہ کسی نئے قسم کے بلیک ہول ایکٹیویشن کا اشارہ ہے یا کوئی سست روی سے ہونے والا مدو جزر (Tidal) کا واقعہ ہے۔
پاؤلا سانچیز نے مزید کہا:
“یہ کہکشاں ہمارے لیے ایک قیمتی موقع ہے کہ ہم یہ جان سکیں کہ بلیک ہولز کس طرح بڑھتے ہیں اور تبدیل ہوتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ مستقبل کی جدید ٹیلی سکوپس اس راز کو مزید قریب سے سمجھنے میں مدد دیں گی۔
یہ واقعہ سائنس دانوں کو یہ سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے کہ بلیک ہول کیسے بڑے ہوتے ہیں اور کہکشائیں کیسے بدلتی ہیں۔ اب سائنس دان بڑی دوربینوں سے مزید مشاہدہ کریں گے تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ واقعہ آخر ہے کیا؟