دنیا تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہے، اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہر روز نت نئی ایجادات منظرِ عام پر آ رہی ہیں۔ جہاں پہلے شناخت کے لیے فنگر پرنٹ، چہرے کی شناخت اور آنکھ کی پتلی ریٹینا کا استعمال عام تھا، وہیں اب سائنس دانوں نے ایک اور حیران کن دریافت کی ہے، زبان (Tongue) کی شناخت کو ایک محفوظ اور منفرد بایومیٹرک ذریعہ قرار دیا جا رہا ہے۔
زبان سے شناخت ایک نیا بائیو میٹرک تصدیقی ٹول ہے جو منفرد ہے اور آسانی سے جعلی نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ کوئی بھی دو زبان کے پرنٹس ایک جیسے نہیں ہیں۔
تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ، زبان کی سطح پر موجود خطوط اور ساخت مکمل طور پر منفرد ہوتے ہیں۔ زبان کو موڑنے، نکالنے یا حرکت دینے کے انداز ہر فرد میں مختلف ہوتے ہیں۔ زبان اندرونی عضو ہونے کی وجہ سے نقصان یا چوری کا امکان بھی کم ہوتا ہے، جو اسے فنگر پرنٹ یا چہرے کی شناخت سے زیادہ محفوظ بناتا ہے۔
چین میں انسان نما روبوٹس کا شاندار باکسنگ مقابلہ، ٹیکنالوجی کی دنیا میں نیا سنگ میل
تحقیق کی روشنی میں
حال ہی میں ہانگ کانگ پولی ٹیکنک یونیورسٹی کے محققین نے زبان کی ساخت اور حرکت کو اسکین کرکے شناخت کرنے کا ایک نیا نظام تیار کیا ہے، جسے 3D Tongue Recognition System کہا جاتا ہے۔ اس نظام میں زبان کی تھری ڈی تصویریں لی جاتی ہیں اور مصنوعی ذہانت یا اے آئی اور مشین لرننگ کی مدد سے شناخت کی جاتی ہے۔
چونکہ زبان اندرونی عضو ہے، اس کی نقل یا جعلسازی تقریباً ناممکن ہے یہ بات اس طریقہ شناخت کو زیادہ سیکیوریٹی فراہم کرتی ہے۔ دوسرے یہ کہ زبان کی شناخت کے ساتھ ساتھ صحت کی کچھ نشانیاں بھی دیکھی جا سکتی ہیں، جیسے زبان کا رنگ، نمی، یا ساخت میں تبدیلی تو یہ ہیلتھ اور سیکیورٹی کا ایک زبردست امتزاج بن جاتا ہے۔
اسکے علاوہ یہ طریقہ آسانی بھی فراہم کرتا ہے، مستقبل میں موبائل فون، لاک سسٹم، یا ایئرپورٹ سیکیورٹی چیک میں زبان کے ذریعے شناخت کی جا سکے گی۔
ذہنی دباؤ جانچنے والا ”الیکٹرانک ٹیٹو“ تیار، پائلٹس اور ڈاکٹروں کے لیے انقلابی ایجاد
زبان دکھانے یا اسکین کروانے کی سماجی قبولیت فی الحال کم ہے۔ کچھ افراد کے لیے زبان نکالنا مشکل ہو سکتا ہے، مثلاً معذور افراد یا بیمار۔ زبان کی تصویر لینے کے لیے خصوصی تھری ڈی اسکینر درکار ہوں گے، جو عام دستیاب نہیں۔
تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ اگلے چند برسوں میں زبان شناخت کو بایومیٹرک نظام کا حصہ بنا دیا جائے گا، خاص طور پر ایسی جگہوں پر جہاں انتہائی محفوظ سیکیورٹی کی ضرورت ہو، جیسے کہ خفیہ ادارے، بینکنگ سسٹمز، ملٹری بیس، ہائی پروفائل سرکاری دفاترجیسے اہم ادارے۔
نابینا افراد کیلئے ’اسمارٹ جوتے‘ تیار
دنیا کس تیزی سے اپنے رنگ بدل رہی ہے، فنگر پرنٹ، چہرے کی شناخت اور آنکھ کی پتلی کے بعد، ’زبان‘ ایک نئی اور محفوظ ترین شناختی علامت کے طور پرسامنے آئی ہے۔ اگرچہ یہ ٹیکنالوجی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، لیکن مستقبل میں یہ ہماری روزمرہ زندگی کا اہم حصہ بن سکتی ہے۔ ویسے تو زبان دکھانا تہذیبی اعتبار سے کچھ غیر مناسب سا لگتا ہے، سوچیے اپنے موبائل کا منہ چڑا کر اسے ان لاک کرنا کیسا لگے گا کیونکہ ممکن ہے جلد ہی زبان دکھا کر لاک کھولا جائے۔