عموماً ہر گھر میں پایا جانے والا ترش پھل ”لیموں“ دیسی علاج کے لیے ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ کبھی اسے ہاضمے کی بہتری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، کبھی متلی یا سفر کی تکلیفوں میں مفید سمجھا جاتا ہے۔ اب دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ لیموں مائیگرین جیسے شدید اور تکلیف دہ سر درد کے علاج میں بھی مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن کیا یہ واقعی سچ ہے؟

مائیگرین یا دردِ شقیقہ ایک ایسا عارضہ ہے جو معمول کی زندگی کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے۔ متاثرہ فرد کو شدید سر درد، روشنی اور آواز کی حساسیت، متلی، اور بعض اوقات دھندلا نظر آنے جیسی علامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جن افراد نے اس تکلیف کا سامنا کیا ہے، وہ جانتے ہیں کہ ایک مؤثر علاج کی تلاش کتنی مایوس کن ہو سکتی ہے۔

تربوز کی چاٹ: گرمیوں میں ذائقے اور ایجاد کا بہترین امتزاج

اسی پس منظر میں یہ خیال گردش کر رہا ہے کہ ”کچا لیموں کھانے سے مائیگرین میں افاقہ ہو سکتا ہے“ لیکن ماہرین اس پر متفق نہیں ہیں۔

ماہرِین نیورولوجیسٹ اس بارے میں واضح رائے رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق: ”ابھی تک اس بات کا کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں کہ لیموں مائیگرین کے درد کو ختم یا کم کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔“

خبردار! پراٹھا پکاتے ہوئے یہ غلطی نہ کریں، صحت کو بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے

البتہ کچھ ایسےگھریلوٹوٹکے ضرور تجویز کیےہیں جن سے وقتی سکون حاصل ہو سکتا ہے جیسے،

پیشانی، کنپٹی یا گردن کے پیچھے گرم کپڑا (hot compress) رکھنا۔

پیروں کو گرم پانی میں ڈبونا۔

گرم پانی سے نہانا یا گرم شاور لینا۔

گردن اور کندھوں پر گرم شال یا ہیٹ پیڈ کا استعمال۔

ڈاکٹرز کے مطابق، یہ طریقے جسم کے متاثرہ حصے کے پٹھوں کو سکون دیتے ہیں، خون کی روانی بہتر کرتے ہیں، اور درد کی شدت کو کم کرنے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔

خواتین ’فروزن شولڈر‘ یا کندھے کی شدید تکلیف سے کیوں دوچار ہوتی ہیں جانئے

ماہرین کے مطابق، مائیگرین کے محرکات میں بعض مخصوص عوامل شامل ہو سکتے ہیں جیسے، تیز آواز یا شور، زیادہ وقت اسکرین دیکھنا، تیز خوشبو یا عط، نیند کی کمی یا زیادتی، درجہ حرارت میں اچانک تبدیلی، روشنی کی شدت

اگرچہ گھریلو ٹوٹکے وقتی سکون دے سکتے ہیں، مگر طویل مدتی یا شدید مائیگرین کے لیے معالج سے رجوع کرنا ضروری ہے

کچے لیموں کو مائیگرین کا ”جادوئی علاج“ کہنا درست نہیں۔ اگرچہ لیموں مجموعی صحت کے لیے فائدہ مند ہے، مگر اس کے ذریعے مائیگرین سے نجات کا کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں۔

بہتر یہی ہے کہ ایسے دعوؤں پر عمل کرنے سے پہلے ماہرِ امراض سے مشورہ ضرور کیا جائے۔

More

Comments
1000 characters