رٹہ یادداشت کوئی فطری صلاحیت نہیں، بلکہ یہ دماغی مشق ہے۔

کلاس کا منظر کچھ ایسا ہے جیسے میدانِ جنگ ہو۔ امتحان سے ایک دن پہلے کمرے کی فضا میں گھبراہٹ اور پریشانی صاف جھلک رہی ہے۔ ایک کونے میں ہلچل سی مچی ہے۔

بچے کی خوراک میں شوگر کب اور کیسے شامل کریں؟

عائزہ بجلی کی رفتار سے اپنی نوٹ بک پلٹ رہی ہے، ہونٹوں ہی ہونٹوں میں کچھ بڑبڑا رہی ہے۔لڑائیوں کی تاریخیں اور مغل بادشاہوں کے نام دہرا رہی ہے۔

اس کے برابر میں علی بےبس نظروں سے اپنی کتاب کو تک رہا ہے۔ وہ حیرت سے پوچھتا ہے، ”تم یہ سب کیسے کر لیتی ہو؟“ عائزہ وہ پیراگراف، جو اس نے صرف دو بار پڑھا، حرف بہ حرف دہرا دیتی ہے۔

توکیا عائزہ ذہین ہے اور علی سست؟ نہیں، سائنس کچھ اور کہتی ہے۔

بیٹی نے ماں کی راکھ بوتل میں ڈال کر سمندر کے حوالے کر دی: ’میری ماں اب دنیا کی سیر پر ہے‘

ایسی عائزہ ہم سب نے کسی نہ کسی کلاس میں دیکھی ہے، جو بغیر کسی دقت کے مکمل ابواب یاد کر لیتی ہے۔ اور کچھ طلبہ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو دو لائنیں یاد کرنے میں بھی الجھ جاتے ہیں۔ تو کیا یہ محض ذہانت کا فرق ہے؟ نہیں۔

ماہرینِ دماغ (نیوروسائنٹسٹس) کہتے ہیں کہ یہ فرق دماغ کی ساخت اور اس کے اندر کام کرنے والے نیورونز کے روابط میں چھپا ہے۔ ہر دماغ مختلف ہوتا ہے، اور کچھ دماغ قدرتی طور پر یادداشت اور توجہ کے نیورل نیٹ ورکس کو زیادہ مؤثر طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔

کیا آپ کا بچہ خاموش ڈپریشن کا شکار ہے؟ بچوں میں ڈپریشن کی علامات کو نظرانداز نہ کریں

یہی وجہ ہے کہ عائزہ جیسی طالبات کے لیے ”رٹہ“ لگانا آسان ہو جاتا ہے، جبکہ علی جیسے طلبہ کو اسی عمل میں وقت لگتا ہے۔

سائنس بتاتی ہے کہ رٹہ یادداشت کوئی جادوئی صلاحیت نہیں بلکہ ایک دماغی مشق ہے۔ جیسے جسم کو فٹ رکھنے کے لیے ورزش ضروری ہے، ویسے ہی دماغ کو تیز رکھنے کے لیے مخصوص مشقیں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

ماہرین یادداشت کو بہتر بنانے کے لیے درج ذیل حکمت عملیاں تجویز کرتے ہیں:

بار بار دہرائیے (Repetition): معلومات کو بار بار دہرانے سے دماغ میں مضبوط نیورل کنکشن بنتے ہیں۔

وقفے سے مطالعہ (Spaced Learning): وقفے وقفے سے پڑھنے سے معلومات دیرپا یاد رہتی ہیں۔

خود کو ٹیسٹ کریں: خود سے سوالات پوچھ کر معلومات کو ذہن میں بٹھایا جا سکتا ہے۔

تصویری یا کہانیوں کے ذریعے سیکھنا: یادداشت بہتر بنانے کے لیے تصویریں یا کہانیاں ایک مؤثر طریقہ ہیں۔

عائزہ جیسی یادداشت حاصل کرنا ممکن ہے، بس ہر طالب علم کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ان کا دماغ کیسے سیکھتا ہے۔ علی کو اگرچہ تھوڑا زیادہ وقت لگتا ہے، لیکن درست تکنیکوں کے ساتھ وہ بھی کامیاب ہو سکتا ہے۔

تحقیقات بتاتی ہیں کہ کچھ طلبہ منطقی انداز میں سوچتے ہیں، کچھ بصری طریقوں سے بہتر سیکھتے ہیں، اور کچھ تعامل (Interaction) سے۔ یہ سب سیکھنے کے فطری طریقے ہیں اور سائنس نے ثابت کیا ہے کہ یہ جینیات، دماغی ساخت اور ماحول سے متاثر ہوتے ہیں۔

پاکستان جیسے ممالک میں جہاں امتحانات کا دار و مدار زیادہ تر یادداشت پر ہوتا ہے، روٹ لرننگ کرنے والے طلبہ کو فائدہ ضرور ہوتا ہے۔ مگر جیسے جیسے دنیا بھر میں تعلیم کا نظام تنقیدی سوچ، تخلیقی صلاحیت اور تجرباتی سیکھنے کی طرف بڑھ رہا ہے، روٹ لرننگ کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے۔

اس نئے دور میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ طلبہ اپنے سیکھنے کے انداز کو پہچانیں اور اس کے مطابق حکمتِ عملی اپنائیں۔

یاد رکھیں ہر دماغ سیکھ سکتا ہے۔ فرق صرف طریقہ کار میں ہوتا ہے۔ اپنے دماغ کو سمجھیں، طریقہ اپنائیں اور کامیابی حاصل کریں۔

More

Comments
1000 characters