کیا واقعی امیر ہونا یا غریب رہنا صرف قسمت کا معاملہ ہے؟ یا پھردولت مندی ہمارے مائنڈ سیٹ پر بھی منحصر ہے؟ یہ سوال ہر انسان کے ذہن میں کسی نہ کسی وقت ضرور آتا ہے۔ خوش قسمتی سے، آج کے جدید دور میں ’ذہن کی طاقت‘ اور ’لاء آف اٹریکشن‘ جیسے تصورات نے ثابت کر دیا ہے کہ، ’ہماری مالی حالت ہمارے مائنڈ سیٹ کا نتیجہ ہوتی ہے۔‘
امیری اور غریبی: مائنڈ سیٹ کا فرق
ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ ہم کچھ یقین یا بلیوز رکھتے ہیں جو ہم تک ہم سے پہلے اس زمین پر موجود لوگوں سے ہم تک پہنچے ہیں۔ آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ ہمارا مائنڈ کس طرح سوچتا ہے اور اسکے کسقدر گہرے اثرات ہماری زندگیوں پر پڑتے ہیں۔
غریب مائنڈ سیٹ ہمیشہ کمی، قلت، اور محرومی پر فوکس کرتا ہے، اور ایسے لوگوں کی گفتگو میں کچھ اس طرح کے الفاظ آپ کو عام سننے کو ملیں گے، ’میرے پاس کبھی پیسے نہیں ہوتے۔‘ دولت بری شے ہے یہ انسان کو خراب عادات کا شکار کردیتی ہے، یا یہ کہ دولت تمام برائیوں کی جڑ ہے، امیر لوگوں کا خون سفید ہوتا ہے، کوئی امیر نہیں ہوسکتا جب تک ناجائززرائع سے پیسہ نا کمایا جائے، یا یہ کہ ہم تو ہیں ہی سدا کے غریب، پیسہ ہماری قسمت میں کہاں، خدا جانے اتنی جلدی لوگ امیر کیسے ہوجاتے ہیں ہمیں تو ساری زندگی ہوگئی اپنا گھر نہ لے سکے وغیرہ وغیرہ ، یہ لوگ ہمیشہ قسمت یا نظام کو الزام دیں گے۔
مائنڈ سیٹ، ایک کامیاب زندگی کی بنیاد
جبکہ امیر مائنڈ سیٹ ہمیشہ موقع، بڑھوتری اور وسائل پر یقین رکھتا ہے۔ وہ لوگ کہتے ہیں’میں دولت کما سکتا ہوں، اور اس کا حقدار ہوں۔’ یہ لوگ سیکھنے اور رسک لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ دولت کو خدمت، آزادی اور ترقی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ انکے الفاظ اورسوچ مختلف ہوتی ہے یہ کہتے ہیں پیسہ ہے تو زندگی خوبصورت ہے۔ یہ خود کو تبدیل کرنے اور خوش رہنے کے فارمولے پر عمل کرتے نظر آئیں گے۔ امیر بننے کے لیے صرف سوچنا کافی نہیں، عمل بھی ضروری ہے، نئی مہارتیں سیکھیں، نئی آئیڈیاز حاصل کریں، کتابیں پڑھیں۔
بیسٹ سیلر بک ’دی سکریٹ‘ میں رہونڈا بائرن لکھتی ہیں، اگر آپ ہر وقت یہ سوچتے رہیں کہ ’میرے پاس پیسے نہیں‘، تو آپ مزید کمی کو(یعنی غریبی کو) اپنی زندگی میں کھینچیں گے یا کشش کریں گے۔
غریبی اور امیری جسمانی نہیں، ذہنی کیفیتیں ہیں۔ افکار بدلیں، احساسات بدلیں، زندگی بدل جائے گی۔ دولت آپ کے خیالات، یقین اور مائنڈ سائنس پر عمل سے آتی ہے۔ پیسہ کمانا سوچنے کا نیا انداز ہے۔
ہم سب نے ہی بچپن میں یہ پڑھا ہے کہ ’ ہر چیز توانائی ہے’ ہر چیز انرجی ہے، لیکن ہم نے کبھی اس کی گہرائی میں جاکر نہیں دیکھا کہ آخر ہر چیز انرجی کا کیا مطلب ہے اور ہر چیز انرجی سے کیا مراد ہے۔ کیونکہ اگر ہر چیز انرجی ہے تو آپ اور میں بھی انرجی ہیں، ہماری اواز بھی انرجی ہے اور سب سے بڑھ کر ہمارے الفاظ ’انرجی‘ ہیں۔ جی ہاں ۔ ۔ ۔ ہمارے الفاظ بھی انرجی ہیں- اور یہ الفاظ آوازکی صورت کائنات میں پھیل کر اپنا جادو دکھاتے ہیں اسکے علاوہ جب ہم سوچتے ہیں تو وہ سوچ بھی انرجی یا توانائی ہے۔ وہ ہم کسی نہ کسی زبان یا لینگویج میں ہی سوچ رہے ہوتے ہیں۔
اور یہ سوچ پوری کائنات میں وائبریشنزکے زریعے اس سب کو کشش کر رہی ہوتی ہے جو ہم اپنی سوچ کے زریعے ٹرانسمٹ کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ جی ہاں بلکل اسی طرح جس طرح کوئی ٹرانسمیٹر وائبز یا ریز کو منتشر کرتا یا پھیلاتا ہے۔
وہ 6 جملے، جو بچے صبح صبح اپنے والدین سے سننا چاہتے ہیں
لہٰذا آپ کے خیالات توانائی کے سگنل ہوتے ہیں۔ اگر آپ ہر وقت کمی، مجبوری اور خوف پر سوچتے ہیں تو یہی لہریں کائنات کو ملتی ہیں اور وہ آپ کو مزید ویسا ہی دیتی ہے۔
آپ نے بارہا یہ کہاوت تو سنی ہی ہوگی ’لائک اٹریکٹس لائک‘ (Like attracts like)
یہ ایک عام کہاوت ہے جو بتاتی ہے کہ ایک جیسی چیزیں قدرتی طور پر ایک دوسرے کی طرف کھینچی جاتی ہیں۔ یہ خیال اکثر رشتوں کو بیان کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، جہاں ایک جیسے مفادات، اقدار یا شخصیات کا اشتراک کرنے والے لوگ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ یہ ’کشش کے قانون‘ کے تصور پر بھی لاگو کیا جا سکتا ہے، جو یہ بتاتا ہے کہ مثبت یا منفی خیالات متعلقہ تجربات یا نتائج کو اپنی طرف متوجہ کر تے ہیں۔
تو جب آپ غریبی کا سوچتے ہیں تو آپکی زندگی میں پیسے کی کمی ہمیشہ ہی رہتی ہے۔ اور جب آپ امیری کا سوچتے ہین تو آپ پیسے کو اٹریکٹ کرتے ہیں۔
اگر آپ بار بار خود کو ایک کامیاب، مطمئن اور دولت مند انسان کی طرح محسوس اور تصور کرتے ہیں، تو آپ کا دماغ اور لاشعور اس حقیقت کو قبول کرنے لگتا ہے اور اقدامات بھی اسی سمت میں ہونے لگتے ہیں۔
مائنڈ سائنس یہ سکھاتی ہے کہ آپ جو اپنے بارے میں سوچتے ہیں، وہی اصل میں بن جاتے ہیں۔ غریبی ایک وقتی حالت ہو سکتی ہے، لیکن اگر آپ اسے اپنی پہچان بنا لیں تو وہ آپ کی زندگی کا مستقل بن سکتی ہے۔
اس قدرت کے قانون سے فائدہ اٹھانے کے لئے آپ کو ’کشش کا قانون‘ سمجھنا ہوگا۔ یہ سب فریکوئینسی اور مائند سیٹ کا گیم ہے دوستو۔ اس میں سب سے طاقتور فریکوئنسی ’شکر گزاری‘ کی فریکوئنسی ہے۔ یہ پہلا قدم ہے امیری کی طرف بڑھنے کا۔ جو کچھ ہے اس پر شکر ادا کرنا مزید کو کھینچتا ہے۔ جو چیزیں آپ کے پاس نہیں ہیں، اگر ان پر رونا ہے تو آپ صرف کمی کو بڑھا رہے ہیں۔
رب کریم نے اس کو بڑا ہی واضح عیاں کردیا ہے کہ ’ تم شکر کروگے میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا’ لیکن ہم ہر وقت ناشکری کے زریعے نعمتوں کو خود سے دور کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ لہٰذا پہلا قدم ’شکرگزاری‘ کو اپنائیں۔ روزانہ خاص طور پر صبح اور سوتے وقت لازمی اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کریں-
اسکے ساتھ ہی تصور(Visualization)، خوداعتمادی اور یقین (Self-belief)، اور پازیٹو افرمیشنز(Positive Affirmations) کے زریعے اس سب کو کشش کریں جو آپ چاہتے ہیں۔
اگر آپ اپنا مائنڈ سیٹ بدل لیں اور کمی کی بجائے فراوانی پر فوکس کریں، منفی جملوں کی جگہ طاقتور الفاظ بولیں، دولت کو برا سمجھنے کے بجائے اسے ایک ذریعہ بنائیں اور پھر عملی قدم اٹھائیں تو دولت آہستہ آہستہ آپ کی زندگی کا حصہ بننے لگے گی۔ دولت پہلے دماغ یعنی سوچ میں آتی ہے، پھرآپ کی دسترس میں۔
اگر آپ کا ذہن مسلسل یہ پیغام کائنات میں بھیج رہا ہو کہ ’میں دولت مند ہوں، پیسہ میرے پاس آسانی سے آتا ہے‘ تو کائنات انہی حالات کو پیدا کرنے میں مدد دیتی ہے۔
حقیقی زندگی کی مثالیں
کئی کامیاب لوگ جیسے باب پراکٹر، نیپولین ہِل، اور جِم کوئک نے یہ ثابت کیا کہ دولت مند بننے سے پہلے انسان کو ذہنی طور پر خود کو دولت کے قابل محسوس کرنا ہوتا ہے۔ ان کے مطابق، سوچ کا انداز بدلتے ہی زندگی بدل جاتی ہے۔
اگر آپ واقعی زندگی میں مالی آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے ذہن کو دولت کی طرف پروگرام کریں۔ آپ کے خیالات، آپ کے الفاظ، آپ کی یقین اور جذبات ہی وہ زریعہ ہیں جن کے ذریعے دولت کو اپنی طرف کھینچا جا سکتا ہے۔
آپ ان کتابوں سے پیسہ حاصل کرنے کی سائنس کو باآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ ’تھنک اینڈ گروو رچ‘ (Think and Grow Rich)، ’رِچ ڈیڈ پوور ڈیڈ‘ (Rich dad poor dad ) اور’دِی سیکرٹ’ (The secret)۔ یہ کتابیں پیسے کی فراوانی کے لئے آپ کی بہترین رہنمائی کرسکتی ہیں تو دیر کس بات کی ہے، جانئے کہ دولت مند کیسے بنا جاتا ہے اوراپنے پلان پر عمل کیجے، آخر ان تمام خوشیوں پر آپ کا بھی تو حق ہے جانئے اور امیر ہوجائیے۔