ایک ماں کا کہنا ہے کہ دور دراز زیرِ زمین بستی میں رہنا کیسا ہوتا ہے، جہاں شدید گرمی کے باعث پوری آبادی ’کھودی ہوئی‘ رہائش گاہوں میں منتقل ہو چکی ہے۔

آسٹریلیا کی دور افتادہ بستی کوبر پیڈی میں ایک انوکھی طرزِ زندگی اپنائی جا رہی ہے، جہاں بہت سے لوگ زمین کے اندر بنے گھروں میں رہائش پذیر ہیں۔

آپ کتنی لمبی اور کتنی صحت مند زندگی جئیں گے؟ جواب خون کی صرف ایک بوند میں

انہی میں سے ایک جرمنی سے تعلق رکھنے والی سابرینا ٹروئیسی بھی ہیں، جنہوں نے اپنے شوہر نک اور بچوں کے ساتھ زیر زمین زندگی کو اپنا لیا۔

سابرینا بتاتی ہیں، ”ہمارا گھر دراصل ایک پہاڑی کے اندر ہے، بس اندر داخل ہوں اور آپ زمین کے اندر ہیں۔“

ہوٹل کے کمروں میں چھت والے پنکھے کیوں نہیں ہوتے؟ حیران کن وجوہات جانئے

کوبر پیڈی کی آبادی تقریباً 1,600 افراد پر مشتمل ہے اور ان میں سے 60 فیصد لوگ ایسے گھروں میں رہتے ہیں جو نرم، جِپسم سے بھرپور پتھروں کو کھود کر بنائے گئے ہیں۔

یہ پتھر اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ بغیر کسی اضافی ڈھانچے کے اپنی شکل برقرار رکھتے ہیں۔

لاوا سے شہر بنانے کا عزم، ماہرین تعمیرات نے نیا محاذ چھیڑ دیا

سابرینا نے بتایا کہ ان کا گھر صرف £132,000 (تقریباً 46 لاکھ روپے) میں بن گیا، جب کہ اسی ملک کے شہر ایڈیلیڈ میں ایک عام مکان کی قیمت £382,000 تک ہو سکتی ہے۔

زیر زمین رہائش کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ، ”نہ زیادہ ٹھنڈک کی ضرورت ہے، نہ ہی ہیٹر یا اے سی۔ بس روشنی درکار ہوتی ہے۔“

یہی وجہ ہے کہ ایسے گھر بنانا اور رکھنا نسبتاً سستا پڑتا ہے۔

سابرینا کے بقول، ”یہاں کا سب سے بڑا فائدہ خاموشی ہے۔ جب دروازہ بند ہو، تو مکمل اندھیرا اور سکون ہوتا ہے۔ نہ کوئی شور، نہ کوئی خلل۔ نیند بہت گہری اور پُرسکون ہوتی ہے۔“

ان کے بچے، جو اب نوجوان ہیں، بچپن میں ہی یہاں آ گئے تھے اور اب سطح زمین پر رہنے کی زندگی کو بھول چکے ہیں۔

سابرینا کہتی ہیں،”جب ہم چھٹیاں منانے شہر جاتے ہیں تو بچوں کو ہر آواز پریشان کرتی ہے جیسےمرغ، گاڑیاں، جہاز، سب کچھ!“

زیر زمین رہنے کے فوائد اپنی جگہ، مگر کچھ مسائل بھی موجود ہیں۔

دیواروں پر باقاعدہ وارنش کرنا پڑتی ہے، ورنہ گردوغبار یا چھت کے ذرات کھانے میں گر سکتے ہیں۔

پانی کی قیمت زیادہ ہونے کے باعث لوگ نہانے یا کپڑے دھونے کے پانی سے ہی پودوں کو سیراب کرتے ہیں۔

کوبر پیڈی کسی بڑے شہر سے 650 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، اس لیے ضروری سہولیات جیسے بینک، ڈاکٹر یا ویٹرنری کلینک تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔

ایک مرتبہ جب سابرینا کے پالتو کتے کی طبیعت خراب ہوئی، تو انہوں نے فیس بک پر مدد مانگی۔ ایک پڑوسی نے فوراً خود گاڑی لے کر ان کی مدد کی۔

سابرینا کہتی ہیں، ”یہاں کے لوگ بہت مددگار اور دوستانہ ہیں۔ ہر کوئی ایک دوسرے کا خیال رکھتا ہے۔“

سابرینا کو یقین ہے کہ زیر زمین زندگی کا یہ انداز ہر کسی کے لیے نہیں ہو سکتا۔ وہ کہتی ہیں، ”یہ ماحول ہمارے یہاں کے خاص پتھروں کی وجہ سے ممکن ہے۔ دنیا کے دوسرے حصوں میں یہ اتنا آسان نہیں ہوگا جب تک کوئی نیا طریقہ نہ ایجاد ہو۔“

پھر بھی، وہ خود اس سادہ اور پرامن زندگی سے بہت مطمئن ہیں اور بڑے شہروں کے شور و ہنگامے سے دور ہی رہنا چاہتی ہیں۔

More

Comments
1000 characters