امریکی خلائی ادارہ ناسا ایک ایسی خلائی چٹان تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے جس کی قیمت کا اندازہ 10 کروڑ کھرب ڈالر (یعنی ایک کواڈریلن ڈالر) لگایا گیا ہے۔ اس چٹان کا نام 16 سائیکی ہے اور سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ اس میں بڑی مقدار میں سونا، پلیٹینیم، نکل اور کوبالٹ جیسے قیمتی دھاتیں موجود ہیں۔
ناسا نے 2023 میں اس مشن کا اعلان کیا اور اکتوبر 2023 میں ایک خلائی جہاز امریکہ کے شہر فلوریڈا سے خلا کی طرف بھیج دیا گیا۔ یہ خلائی جہاز بہت تیز رفتاری سے سفر کر رہا ہے اور امید ہے کہ اگست 2029 میں 16 سائیکی تک پہنچ جائے گا۔
خلا نورد نے آسمان اور زمین کے درمیان بجلی کے پلر کا نایاب منظر قید کرلیا
ناسا کا مقصد صرف خزانے تک پہنچنا نہیں، بلکہ یہ بھی جاننا ہے کہ زمین جیسے سیارے کیسے بنتے ہیں اور ان کی اندرونی پرتیں کس طرح کام کرتی ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر یہ خزانہ زمین پر لایا جائے، تو دنیا کا ہر انسان ارب پتی بن سکتا ہے۔ کیوں کہ اس سیارچے کی قیمت پوری دنیا کی کل دولت سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔
گینگ وار کی نئی کہانی: محبت، دھوکہ اور موت، خوفناک انجام کا نیا چہرہ
لیکن کئی ماہرین اس سے متفق نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اتنا سونا یا قیمتی دھاتیں ایک ساتھ مارکیٹ میں آ گئیں، تو ان کی قیمت گر جائے گی۔
جیسے ایک ماہر نے کہا، ”اگر سونے کی مقدار بہت زیادہ ہو جائے، تو اس کی قیمت بہت کم ہو جائے گی۔ پھر سونا بھی عام چیز بن جائے گا، جیسے لوہا یا پتھر۔“
سائنسدانوں کا مائع سے ٹھوس شکل میں ٹرمینیٹر طرز کا روبوٹ تیار کرنے کا دعویٰ
ایک اور ماہر نے کہا، ”یہ خزانہ کسی کو امیر نہیں کرے گا، بلکہ جو لوگ آج ارب پتی ہیں، ہو سکتا ہے وہ سب کچھ کھو دیں۔“
یہ خلائی مشن بہت دلچسپ ہے، لیکن اس کے اثرات صرف سائنسی نہیں بلکہ معاشی بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر یہ خزانہ زمین پر آ گیا تو دنیا کی معیشت، مارکیٹ اور دولت کا نظام مکمل طور پر بدل سکتا ہے۔
یہ فیصلہ آنے والے سالوں میں ہوگا کہ یہ مشن انسانیت کے لیے خوش قسمتی لائے گا یا نئی مشکلیں پیدا کرے گا۔ فی الحال، ناسا پوری محنت سے 16 سائیکی تک پہنچنے کی تیاری کر رہا ہے۔