دنیا میں چوریاں تو روز ہوتی ہیں، کہیں زیور چرایا جاتا ہے، کہیں گاڑی، اور کہیں موبائل فون۔ لیکن آسٹریلیا کے شہر برسبین میں پیش آنے والی حالیہ چوری نے سب کو حیرت میں ڈال دیا، اور شاید ہنسی میں بھی۔

جی ہاں! برسبین کے ایک نواحی علاقے کینمور میں واقع چھوٹی سی فیملی شوز شاپ ’شُو فیشنز‘ سے 52 دائیں جوتے چرا لیے گئے۔ جی ہاں، صرف ’دایاں‘ جوتا ۔۔۔۔ نہ بایاں، نہ جوڑی ۔۔۔۔ صرف دایاں! گویا چور کو فیشن کی کوئی نئی سمت متعارف کرانی ہو۔

دکان کی مالکن تمارا شوراک نے اس امکان کو یکسر مسترد کر دیا کہ چور نے غلطی سے صرف دائیں جوتے چرائے ہوں۔ ان کے مطابق یہ جوتے ایک سیل ٹیبل پر رکھے گئے تھے، اور جیسا کہ شوز کی دنیا میں رائج معمول ہے، صرف دایاں جوتا ڈسپلے پر رکھا جاتا ہے تاکہ چوری کی صورت میں مکمل جوڑی نہ اڑائی جا سکے۔

مگر یہاں تو دایاں ہی چوری ہوا، وہ بھی درجنوں کی تعداد میں!

چور نے اپنی شناخت چھپانے کی کوشش بھی نہ کی

سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق یہ چور رات کے وقت آیا، بڑے اطمینان سے سوٹ کیس میں جوتے بھرے، چہرہ کھلا رکھا، نہ کوئی ماسک، نہ کیپ۔ نہ کوئی جلد بازی، نہ کوئی شرمندگی۔ گویا چوری نہیں، خریداری کی ہو۔

اس انوکھے واقعے سے دکان کو تقریباً چھ ہزار ڈالر کا نقصان ہوا، جو کہ 17 لاکھ پاکستانی روپے سے زیادہ کے برابر ہے۔ یہ رقم سیل قیمت کے حساب سے لگائی گئی ہے، یعنی ان جوتوں کی مارکیٹ ویلیو اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

اس خبر پر عوام کی رائے بھی بہت اہمیت رکھتی ہے جو حیرت، ہمدردی اور سوالات پر مبنی ہے۔

اس واقعے پر ایک خریدار نے جذباتی انداز میں کہا، ’دل تو ٹوٹ گیا، سمجھ نہیں آتی اس چوری کا مطلب کیا تھا۔‘ دوسرے نے ہنستے ہوئے سوال اٹھایا، ’اب وہ ان جوتوں کا کرے گا کیا؟ سب تو ادھورے ہیں!‘

یہ سوال یقیناً ہر باشعور فرد کے ذہن میں آتا ہے کہ صرف دائیں جوتے آخر کس کام آئیں گے؟

کیا وہ بائیں جوتے چوری کرنے کے لیے دوبارہ آئے گا؟

یا کوئی ’دایاں پاؤں‘ فیشن شروع ہونے والا ہے؟

یا یہ کوئی نفسیاتی معاملہ ہے؟

تاہم دکان مالکن تمارا شوراک نے اپیل کی ہے اور اپنے پیغام میں کہا، ’براہِ کرم جوتے واپس لے آئیے، چاہے چپکے سے ٹیبل کے نیچے رکھ دیں، چہرہ ڈھانپ لیں، کیپ پہن لیں، ہمیں فرق نہیں پڑتا ۔۔۔ بس واپس کر دیجیے، کوئی سوال نہیں کیا جائے گا۔‘

قانونی کارروائی جاری ہے

کوئنزلینڈ پولیس نے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے اور عوام سے تعاون کی اپیل کی ہے۔ اگر آپ نے کوئی مشتبہ شخص دیکھا ہے جو صرف ’دایاں جوتا‘ پہنتا ہو، تو فوری اطلاع دیں!

چوری کی یہ واردات سوچنے پر ضرور مجبور کرتی ہے، انسان پہلے حیرت زدہ ہوتا ہے، پھر مسکرا دیتا ہے، اور آخرکار سوچنے لگتا ہے کہ معاشرے میں عجیب و غریب رویّے کتنے عام ہوتے جا رہے ہیں۔ اگرچہ یہ واقعہ ظاہری طور پر ایک چوری ہے، مگر اس میں ایک معاشرتی طنز چھپا ہوا ہے، کہ اب چوریاں بھی ’عجیب‘ رخ اختیار کرتی جارہی ہیں۔

More

Comments
1000 characters