سائنس دانوں کے مطابق ہر تقریباً 11 سال بعد سورج ایک خاص مرحلے میں داخل ہوتا ہے جسے سولر میکسیمم کہا جاتا ہے۔ اس دوران سورج کی سطح پر سن اسپاٹس یا دھبے، شمسی شعلے، اور کرونل ماس اجیکشنز میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس عمل کے دوران سورج کے مقناطیسی قطبین میں تبدیلی آتی ہے یعنی پولز الٹ جاتے ہیں۔ اس وقت ہم سورج کے موجودہ سائیکل 25 کے عروج پر ہیں، جس کے اثرات نہ صرف خلا میں بلکہ زمین پر بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔
سولر میکسیمم کے دوران سورج پر ’سن اسپاٹس‘ کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ یہ دھبے سورج کی سطح پر نسبتاً ٹھنڈی اور تاریک جگہیں ہوتی ہیں، لیکن ان کی موجودگی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سورج کے اندر توانائی کی سرگرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ناسا کے مطابق یہ ایک سنہری موقع ہوتا ہے کہ ہم سورج کے بارے میں مزید سیکھ سکیں، مگر ساتھ ہی اس کے زمینی نظاموں پر منفی اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔
شمسی شعلے اور کرونل ماس اجیکشنز زمین کے قریب موجود سیٹلائٹس، نیویگیشن سسٹمز، GPS، ریڈیو کمیونیکیشن، اور برقی نظاموں کو متاثر کر سکتے ہیں۔ بعض اوقات یہ توانائی سے بھرپور ذرات اتنے طاقتور ہو سکتے ہیں کہ وہ پاور گرڈز کو بند کر کے بڑے پیمانے پر بلیک آؤٹ کا سبب بن سکتے ہیں۔
خلائی سفر اور فضائی پروازوں پر اثرات
سولر میکسیمم کے دوران سورج کی شعاعوں میں اضافہ ہو جاتا ہے، جو خلا میں موجود خلانوردوں کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ بلند پرواز کرنے والی کمرشل پروازوں میں مسافروں اور عملے کو بھی شمسی تابکاری سے نقصان پہنچنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے کچھ فضائی راستے مخصوص وقتوں میں تبدیل کیے جاتے ہیں تاکہ تابکاری کی شدت سے بچا جا سکے۔
شمسی سرگرمیوں کے نتیجے میں آسمان میں دکھائی دینے والی روشنیاں، جنہیں اوروراز (Auroras) کہتے ہیں، زیادہ واضح اور دور دراز علاقوں تک دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان روشنیوں کی شدت اور تعدد سولر میکسیمم میں بڑھ جاتی ہے۔ شمالی اور جنوبی قطبین کے قریب رہنے والے افراد اس فطری مظہر کا بہتر نظارہ کر سکتے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلیوں پر محدود اثرات
یہ بات اہم ہے کہ سولر میکسیمم کا زمین کی موسمیاتی تبدیلی پر بہت معمولی اثر ہوتا ہے۔ انسانی سرگرمیوں، خاص طور پر صنعتوں سے خارج ہونے والی گیسوں، کے مقابلے میں سورج کی یہ سرگرمیاں عالمی درجہ حرارت پر زیادہ اثر نہیں ڈال سکتیں۔ البتہ، وقتی طور پر کچھ موسمیاتی نظاموں میں تبدیلی آ سکتی ہے۔
ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ عوام الناس کو معتبر اداروں جیسے ناسا، NOAA، اور’اسپیس ویدر پریڈکشن سینٹر’ کی ویب سائٹس سے شمسی سرگرمیوں کی اطلاعات لیتے رہنا چاہیے۔ حساس برقی آلات اور سیٹلائٹ سسٹمز کو شمسی شعاعوں سے بچانے کے لیے حفاظتی اقدامات کرنا ضروری ہیں۔ جدید دور میں ایسے سسٹمز کی تیاری ہو رہی ہے جو خودکار طور پر ایسے حالات کا سامنا کر سکیں۔
یہ حقیقت ہے کہ سولر میکسیمم فطرت کا ایک حیرت انگیز اور پیچیدہ مظہر ہے، جو جہاں ایک طرف سائنسی تجسس کو مہمیز دیتا ہے، وہیں دوسری طرف ہماری ٹیکنالوجی، مواصلاتی نظام اور انسانی تحفظ کے لیے چیلنج بن سکتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی سائنسی بصیرت، احتیاطی تدابیر، اور عالمی تعاون سے اس کائناتی مظہر کو بہتر طور پر سمجھیں اور اس سے محفوظ رہیں۔