برطانیہ کے شمالی سرسبز پہاڑی سلسلے میں واقع ’میگنا فورٹ‘ پر جاری کھدائی کے دوران ایک حیران کن دریافت نے ماہرین آثارِ قدیمہ کو چونکا دیا ہے۔ رومی سلطنت کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے تعمیر کی گئی مشہور ’ہیڈریئنز وال‘ کے قریب واقع اس قدیم قلعے سے کچھ غیر معمولی طور پر بڑے سائز کے جوتے برآمد ہوئے ہیں، یہ دریافت نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ رومی فوجی تاریخ کے کچھ نئے گوشوں کو بھی بے نقاب کر رہی ہے۔

میگنا فورٹ پہلی صدی عیسوی کے اواخر میں تعمیر کیا گیا تھا، اور یہاں وقتاً فوقتاً مختلف رومن فوجی دستے اور ان کے اہلِ خانہ آ کر آباد ہوتے رہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ہر چند سال بعد فوجی یونٹ تبدیل کیے جاتے تھے، اور پرانے مکین اپنے سامان، بشمول جوتے، خندقوں اور تعمیراتی ملبے میں چھوڑ جاتے تھے۔

ماہرین آثار قدیمہ انسانی ڈھانچے کی جنس کیسے بتا دیتے ہیں؟

جوتوں کی حیران کن جسامت

میگنا فورٹ سے حالیہ دریافتوں میں 34 جوتے شامل ہیں، جن میں کچھ بچوں کے جوتے بھی شامل ہیں، تاہم سب سے چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ ان میں سے آٹھ جوتے 30 سینٹی میٹر (11.8 انچ) سے بھی زیادہ لمبے ہیں، جن کی طوالت موجودہ امریکی مردانہ سائز 13.5 یا اس سے بھی زیادہ ہے۔ یہ بات حیرت انگیز ہے کیونکہ رومن دور کے دیگر قلعوں جیسے ’ویندولانڈا‘ سے ملنے والے جوتے عمومی طور پر ایک عام سائز (امریکی مردانہ سائز 8) کے ہوتے تھے۔

کیا یہ دیو قامت سپاہی تھے؟

ماہرین اب یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آخر میگنا فورٹ پر تعینات رومن سپاہی اتنے لمبے قد کے کیوں تھے؟ تاریخی ریکارڈ کے مطابق رومی فوجی بھرتی کے اصولوں میں مثالی سپاہی کا قد 5 فٹ 8 یا 9 انچ بتایا گیا ہے۔ مگر چونکہ رومی فوج میں مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہوتے تھے، جیسے شام سے حمیمی تیر انداز، کروشیا و سربیا سے کوہستانی دستے، اور نیدرلینڈز سے بٹاوی فوجی، اس لیے جسمانی ساخت میں فرق ممکن ہے۔

یہ جوتے گائے کی کھال سے بنائے گئے تھے، جنہیں لوہے کی کیلوں سے مضبوط کیا گیا تھا۔ یہ جوتے ممکنہ طور پر اس لیے محفوظ رہ سکے کیونکہ ان میں سبز پودوں سے تیار شدہ تانن (tannin) استعمال کیا گیا، جس نے انہیں نمی اور گرمی کے خلاف محفوظ رکھا۔ تاہم اب موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث زمین کے اندر موجود کم آکسیجن والے حالات ختم ہو رہے ہیں، جس سے یہ قیمتی آثار جلد خراب ہو سکتے ہیں۔

دانت اور ہڈیوں سے متعلق ماہرینِ آثار قدیمہ کے اہم انکشافات

ماہرین کا کہنا ہے کہ قدیم لوگوں کی روزمرہ زندگی کی جھلک ان اشیاء سے ملتی ہے جو وہ پیچھے چھوڑ گئے، جوتے، برتن، کپڑے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے نام تاریخ نے محفوظ نہیں کیے، مگر ان کی زندگیوں کے آثار ہمیں ان کے طرزِ حیات، قد، کام اور تعلقات کے بارے میں معلومات دیتے ہیں۔

کھدائی کرنے والی ٹیم اب ان جوتوں پر موجود ممکنہ قدموں کے نشانات کا تجزیہ کرنے کی امید رکھتی ہے، تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ ان کا پہننے والا کون تھا۔ چونکہ اس خطے میں زیادہ تر لاشیں جلائی جاتی تھیں، اس لیے ہڈیوں سے براہ راست معلومات ملنا مشکل ہے، تاہم باقی آثار جیسے برتن اور تعمیرات سے وقت کے تعین اور انسانی موجودگی کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔

آثار قدیمہ اور وقت کی دوڑ

میگنا فورٹ میں جوتے اتنے محفوظ حالت میں نہیں ہیں جتنے ویندولانڈا میں ملے تھے، اور اس کی وجہ موجودہ ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں۔ خشک سالی، طوفانی بارشوں اور دیگر موسمی شدتوں نے زمین کے اندر موجود نامیاتی مواد کی بقا کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین آثار قدیمہ اس مقام کی کھدائی میں جلدی کر رہے ہیں۔

کراچی: ملیر میں ہزاروں سال قدیم چھوٹا قصبہ دریافت، موہن جو دڑو سے مشابہت

میگنا فورٹ سے ملنے والے جوتے صرف چمڑے کے ٹکڑے نہیں، بلکہ وہ ان انسانوں کی کہانیاں سناتے ہیں جنہوں نے 2,000 سال پہلے اس سرحدی قلعے میں زندگی گزاری۔ یہ دریافت نہ صرف تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اہم ہے بلکہ انسانی تاریخ کے ان گوشوں کو بھی اجاگر کرتی ہے جو کتب میں نہیں بلکہ زمین کی تہوں میں دفن ہیں۔

More

Comments
1000 characters