زیادہ تر گھروں میں ایک مانوس منظر دکھائی دیتا ہے، بچہ میز پر پنسل سے ٹھک ٹھک کرتا ہوا، ریاضی حل کرتے ہوئے گنگناتا یا ہوم ورک کے دوران وقفے میں کارٹون بناتا ہے۔

کئی سالوں تک ان سرگرمیوں کو محض بیکار مشغلے سمجھا گیا، لیکن اب سائنسی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ معمولی سی سرگرمیاں دراصل سیکھنے کے عمل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

والدین کی یہ عادتیں بچوں کے دماغ کو کمزور کردیتی ہیں

روایتی تعلیم کے طریقے جہاں صرف پڑھنے اور لکھنے پر توجہ دیتے ہیں، وہیں حرکت، تال اور تخلیقی صلاحیتیں گہری سمجھ بوجھ کی بنیاد بن سکتی ہیں۔

یہ سادہ سرگرمیاں جیسے موسیقی، ڈرائنگ یا واکنگ بچے کو بہتر سوچنے، زیادہ توجہ مرکوز کرنے اور سیکھے ہوئے مواد کو زیادہ مؤثر طریقے سے یاد رکھنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔

والدین کی لڑائیوں کے بچوں پر گہرے اثرات، ماہرین کی اہم ٹپس

موسیقی اورذہن: یادداشت کو بہتر بنانے کا انوکھا طریقہ

ہلکی پھلکی موسیقی، خاص طور پر آلاتِ موسیقی یا قدرتی آوازوں پر مبنی موسیقی، یادداشت اور مزاج پر مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔

بچوں کے لیے، پڑھائی کے دوران گنگنانا یا سکون بخش دھنیں سننا اضطراب کو کم کرتا ہے اور دماغ میں ایک مستحکم تال پیدا کرتا ہے۔ نیوروسائنٹسٹس اس بات کو ”موزارٹ ایفیکٹ“ سے منسلک کرتے ہیں، جہاں مخصوص قسم کی موسیقی سننے سے جگہ اور وقت کے بارے میں سوچنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔

لیکن جب بچے موسیقی کو فعال طور پر استعمال کرتے ہیں، جیسے کہ کسی سبق کو گانے میں بدلنا یا جدولوں کو یاد کرتے ہوئے تالیاں بجانا، تو دماغ میں نئے نیورل راستے بنتے ہیں۔ یہ صرف شور نہیں، بلکہ یہ یادداشت کا ایک متحرک عمل ہے جو دماغ کی قوت کو مضبوط کرتا ہے۔

ڈرائنگ اور دماغ کی کارکردگی

جب بچے پڑھتے ہوئے ڈرائنگ کرتے ہیں، چاہے وہ محض اشکال یا بے ترتیب پیٹرن ہی کیوں نہ ہوں، تو دماغ ایک خاص حالت میں داخل ہوتا ہے جسے ”ڈفیوزڈ تھنکنگ“ کہا جاتا ہے۔

اس حالت میں خیالات زیادہ آزادانہ طور پر جڑتے ہیں۔ ڈرائنگ صرف ایک فنون لطیفہ کی سرگرمی نہیں ہے، بعض بچوں کے لیے یہ تخیل اور معلومات کے درمیان ایک پل بن جاتی ہے۔

مثال کے طور پر، اگر کوئی بچہ سائنس کے کسی تصور کو ڈرائنگ کی مدد سے سمجھے، تو وہ اسے صرف زبانی پڑھنے کی نسبت زیادہ بہتر طریقے سے یاد رکھ سکتا ہے۔ ایک سادہ پنسل وہ کام کر سکتی ہے جو طویل لیکچر نہیں کر پاتا، یعنی بچے کو تصور کرنے اور یاد رکھنے میں مدد دیتی ہے۔

واکنگ اور دماغ کی فعالیت

دنیا کے بڑے مفکرین جیسے چارلس ڈارون اور اسٹیو جابز دماغ کو تازہ رکھنے کے لیے واکنگ کے قائل تھے۔ بچوں کے لیے، خاص طور پر جو زیادہ دیر تک بیٹھے رہنے کے بعد بے چین ہو جاتے ہیں، پڑھائی کے دوران ایک چھوٹی سیر دماغ میں آکسیجن کی روانی کو بڑھا کر توجہ دوبارہ مرکوز کر سکتی ہے۔

چلنا تخلیقی سوچ میں 60 فیصد تک اضافہ کر سکتا ہے۔ باہر چلنا، درخت دیکھنا یا پرندوں کی آوازیں سننا حسی طور پر دماغ کو تازہ کر دیتا ہے۔

جن بچوں کو کوئی مشکل مسئلہ حل کرنے میں دقت ہو رہی ہو، ایک پانچ منٹ کی خاموش سیر زیادہ مددگار ثابت ہو سکتی ہے بجائے کہ وہ ایک گھنٹہ کتاب کو گھور رہے ہوں۔

رقص دماغی خیالات کو ترتیب دینے میں کیسے مدد دیتی ہے

رقص صرف تفریح نہیں، بلکہ ایک منظم حرکت ہے۔ یہ بچوں کو پیٹرن پہچاننا، وقت کی پابندی، ہم آہنگی اور جسمانی شعور سکھاتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام مہارتیں ریاضی اور پڑھائی میں بھی ضروری ہوتی ہیں۔ جو بچے باقاعدگی سے رقص کرتے ہیں، وہ بہتر ردھم اور تسلسل کا احساس پیدا کرتے ہیں، جو بعد میں جملے بنانے یا مساوات حل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

”کچھ نہ کرنے“ کا فائدہ

اکثر بچے کتابیں کھول کر بیٹھے رہتے ہیں لیکن ذہن بند ہوتا ہے۔ یہ سستی نہیں، بلکہ دماغی بوجھ ہوتا ہے۔ خاموش تخلیقی لمحات جیسے رنگ بھرنا، نرم دھنیں سننا یا درخت کے نیچے بیٹھنا دماغ کو سیکھے ہوئے مواد کو ہضم کرنے کا وقت دیتے ہیں۔ یہ ”انکیوبیشن پیریڈ“ کہلاتا ہے۔

ان وقفوں کے دوران، تحت الشعور دماغی پس منظر میں معلومات پر کام کرتا رہتا ہے۔ اس لیے جو بچہ پولنیشن کے بارے میں پڑھنے کے بعد پھولوں کی ڈرائنگ کرتا ہے، وہ دراصل وقت ضائع نہیں کر رہا، بلکہ گہری سمجھ بوجھ پیدا کر رہا ہوتا ہے۔

یہ ساری سرگرمیاں نہ صرف بچوں کی پڑھائی میں مددگار ہیں، بلکہ ان سے دماغی فعالیت میں بھی بہتری آتی ہے، جو کہ ایک بہتر سیکھنے کے تجربے کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔

More

Comments
1000 characters