ریگستانی علاقوں میں اونٹ کو ہمیشہ ایک نہایت منفرد اور کارآمد جانور کے طور پر جانا گیا ہے۔ ”صحراؤں کا جہاز“ کہلانے والا اونٹ اپنی برداشت، منفرد چال، اور سخت ترین حالات میں زندہ رہنے کی صلاحیت کے باعث ہمیشہ سے انسان اور سائنس دانوں کی دلچسپی کا مرکز رہا ہے۔ اب ایک نئی تحقیق نے اونٹ کے آنسوؤں کو طبی دنیا میں توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔

دبئی کے ’سینٹرل ویٹرنری ریسرچ لیبارٹری‘ میں کی جانے والی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق، اونٹ کے آنسو 26 مختلف اقسام کے سانپوں کے زہر کو غیر مؤثر بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر یہ دعویٰ سائنسی طور پر درست ثابت ہوتا ہے تو یہ سانپ کے زہریلے کاٹ کے علاج میں ایک انقلابی پیش رفت ہو سکتی ہے، خاص طور پر بھارت جیسے ممالک میں جہاں سانپ کے کاٹ سے ہر سال ہزاروں اموات واقع ہوتی ہیں۔

اونٹ کے آنسو: صرف پانی نہیں، بلکہ علاج کا خزانہ؟

اونٹ کے آنسوؤں میں مختلف حیاتیاتی مرکبات (بائیو ایکٹو کمپاؤنڈز) پائے جاتے ہیں جن میں مخصوص پروٹینز اور ’لائزو زائم‘ شامل ہیں۔ یہ مرکبات نہ صرف انفیکشن سے لڑنے میں مددگار ہیں بلکہ تحقیق کے مطابق زہریلے مادّوں کو غیر فعال کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ایک امید افزا پیش رفت، مگر تحقیق مزید مراحل میں

یہ تحقیق فی الحال پیئر ریویو (سائنسی تصدیق) کے عمل سے نہیں گزری ہے، اور اسے بین الاقوامی جریدوں میں شائع ہونا باقی ہے۔ تاہم ابتدائی نتائج نے ماہرینِ زہریات (toxicology) اور دوا ساز اداروں کی توجہ حاصل کر لی ہے۔ اگر اونٹ کے آنسوؤں سے سستے اور مؤثر اینٹی وینم تیار کیے جا سکیں، تو یہ نہ صرف جانیں بچا سکتا ہے بلکہ ترقی پذیر ممالک میں صحت عامہ کے شعبے میں انقلاب لا سکتا ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ اونٹ کے جسمانی مادّے طبی اہمیت کا حامل سمجھے جا رہے ہیں۔ اس سے قبل بھی اونٹ کے دودھ، خون اور حتیٰ کہ آنکھوں کے آنسو میں مختلف بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت بڑھانے والے عناصر دریافت کیے جا چکے ہیں۔

دبئی کی لیبارٹری کی یہ تحقیق مزید تجربات میں بھی سچ ثابت ہوتی ہے، تو اونٹ کا کردار صرف نقل و حمل یا دودھ تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ یہ زہریلے سانپوں کے علاج میں ایک قدرتی دوا کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ ماہرین کو اب اس تحقیق کی مزید جانچ پڑتال، تجربات اور سائنسی توثیق کا انتظار ہے تاکہ اس حیران کن دریافت کو عملی شکل دی جا سکے۔

More

Comments
1000 characters