یونیورسٹی آف پورٹس ماؤتھ کے طبیعیات دان ڈاکٹر میلون واپسن نے ایک حیران کن نظریہ پیش کیا ہے جس کے مطابق کششِ ثقل دراصل کائنات میں چلنے والے کمپیوٹیشنل عمل کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔ ان کے مطابق یہ ممکن ہے کہ کائنات ایک بہت بڑے کوانٹم کمپیوٹر کی طرح کام کر رہی ہو، اور کششِ ثقل اس کمپیوٹر کے انفارمیشن کو ترتیب دینے کی کوشش کا ایک ضمنی اثر ہو۔

ڈاکٹر واپسن کا کہنا ہے کہ کششِ ثقل کا سبب وہ طریقہ کار ہو سکتا ہے جس کے تحت کائنات مادے کے بارے میں معلومات کو جگہ اور وقت میں ترتیب دیتی ہے۔ وہ ”سیکنڈ لاء آف انفارمیشن ڈائنامکس“ کی بنیاد پر یہ استدلال کرتے ہیں کہ ممکن ہے کائنات میں موجود اشیاء اور مادہ اس لیے ایک دوسرے کی طرف کھنچتے ہیں کیونکہ کائنات معلومات کو منظم اور مختصر رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا، ’میری تحقیق اس خیال سے مطابقت رکھتی ہے کہ ہو سکتا ہے کائنات ایک عظیم کمپیوٹر کی طرح کام کر رہی ہو، یا پھر ہمارا پورا وجود ایک تخلیق شدہ سمیولیٹڈ دنیا ہو۔ جیسے کمپیوٹر معلومات بچانے اور مؤثر طریقے سے چلنے کی کوشش کرتے ہیں، ویسے ہی کائنات بھی معلومات کو ترتیب دے کر خود کو مؤثر بنانے کی کوشش کر رہی ہو۔‘

ڈاکٹر واپسن اس سے قبل بھی اس بات پر تحقیق کر چکے ہیں کہ معلومات کا اپنا وزن ہوتا ہے، اور تمام بنیادی ذرات — جو کائنات کی سب سے چھوٹی اکائیاں ہیں — اپنے بارے میں معلومات ذخیرہ کرتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے حیاتیاتی خلیے ڈی این اے محفوظ رکھتے ہیں۔

اپنی تازہ تحقیق میں انہوں نے یہ دکھایا ہے کہ کیسے کائنات کی ساخت میں موجود چھوٹے ”سیلز“ ڈیٹا اسٹوریج کا کام کرتے ہیں۔ ان سیلز میں موجود معلومات ہی مادے کی خصوصیات اور اس کا خلا میں مقام متعین کرتی ہیں۔ ہر سیل بائنری ڈیٹا کی صورت میں معلومات درج کرتا ہے — اگر سیل خالی ہو تو ”0“، اور اگر اس میں مادہ ہو تو ”1“۔

ڈاکٹر واپسن نے مزید کہا، ’یہ عمل بالکل ویسا ہی ہے جیسے کوئی ڈیجیٹل کمپیوٹر گیم، ورچوئل رئیلٹی ایپلیکیشن یا کوئی اور جدید سمیولیشن ڈیزائن کی جاتی ہے۔‘

انہوں نے وضاحت کی کہ چونکہ ایک سیل میں ایک سے زیادہ ذرات سما سکتے ہیں، اس لیے نظام خود کو یوں ارتقاء دیتا ہے کہ وہ ذرات کو خلا میں اس انداز سے حرکت دے کہ وہ ایک ہی سیل میں ضم ہو جائیں۔ یہی وہ لمحہ ہے جب کششِ ثقل کی قوت پیدا ہوتی ہے، کیونکہ کمپیوٹیشنل نظام میں طے شدہ اصول کے مطابق معلومات کی مقدار کو کم سے کم رکھنا ضروری ہوتا ہے۔

انہوں نے سادہ لفظوں میں کہا، ’ایک ہی جسم کا مقام اور حرکت معلوم کرنا، کئی اجسام کے مقابلے میں کمپیوٹیشن کے لحاظ سے کہیں زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔ لہٰذا، کششِ ثقل دراصل ایک ایسا نظامی عمل ہو سکتی ہے جو معلومات کو کمپریس کرنے کے لیے کائناتی کمپیوٹر کا ایک حصہ ہے۔‘

کیا واقعی ہم ایک عظیم کمپیوٹر کے اندر جی رہے ہیں؟ یا ہماری کائنات محض ایک سمیولیشن ہے؟ ڈاکٹر واپسن کی تحقیق نے سائنس کی دنیا میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

More

Comments
1000 characters