بھارت کے معروف اداکار اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر رہنما پریش راول نے حالیہ انٹرویو میں ایسا دعویٰ کیا ہے جس نے سوشل میڈیا پر بحث کا طوفان کھڑا کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک پرانی فلم کی شوٹنگ کے دوران گھٹنے کی شدید چوٹ سے صحت یاب ہونے کے لیے انہوں نے صبح کے وقت اپنا پیشاب پیا اور اسی عمل سے ان کی حالت تیزی سے بہتر ہوئی۔
پریش راول نے دعویٰ کیا کہ فلم ”گھاتک“ کی شوٹنگ کے دوران زخمی ہونے کے بعد ایک قریبی ہسپتال میں سٹنٹ ماسٹر ویرو دیوگن (اداکار اجے دیوگن کے والد) نے انہیں یہ ”گُر“ بتایا۔ پریش راول کے مطابق انہوں نے اس ہدایت پر عمل کرتے ہوئے مسلسل پندرہ دن تک صبح اپنا پیشاب پیا، اور اس دوران ان کی چوٹ حیرت انگیز طور پر جلدی ٹھیک ہو گئی۔
گرمیوں میں زیادہ گنے کا شربت پینا کتنا خطرناک ہے؟
ان کا یہ بیان، جسے انہوں نے ”شیومبو“ تھراپی کا نام دیا، نہ صرف انٹرنیٹ پر وائرل ہو چکا ہے بلکہ اسے تنقید اور طنز کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین نے اس بیان کو ”غیر ذمہ دارانہ“، ”غلط مثال“ اور ”نوجوانوں کے لیے گمراہ کن“ قرار دیا ہے۔
ادھر میڈیکل ماہرین نے پریش راول کے اس تجرباتی علاج کو نہ صرف ناقابلِ اعتبار بلکہ خطرناک بھی قرار دیا ہے۔
بی بی سی کے مطابق ماہر غذائیات دیویا پرکاش کا کہنا ہے کہ انسانی پیشاب دراصل جسم سے خارج ہونے والا فضلہ ہے جسے دوبارہ جسم میں داخل کرنا سائنسی لحاظ سے کسی بھی طور فائدہ مند نہیں۔ ان کے مطابق اس قسم کی روایات سائنسی بنیادوں پر ثابت نہیں اور ان کا پھیلاؤ صحت کے لیے خطرناک رجحانات کو فروغ دے سکتا ہے۔
مارینگو ایشیا ہسپتال کے ڈاکٹر سنجے اگروال کا کہنا تھا کہ پیشاب میں بیکٹیریا، یوریا اور زہریلے مادے ہوتے ہیں، اور انہیں دوبارہ جسم میں لینا گردوں اور جگر کے افعال کو متاثر کر سکتا ہے۔ ڈاکٹر انیل کمار بھاٹیہ نے بھی اس دعوے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ صرف ایک ذاتی تجربہ ہو سکتا ہے، لیکن اسے بطور علاج پیش کرنا ایک غیر سائنسی اور خطرناک رجحان ہے۔‘
آلودگی کا خواتین میں بانجھ پن اور مخصوص ایام کے مسائل سے کیا تعلق ہے؟ لازمی جانئے
یہ پہلا موقع نہیں جب بھارت میں کسی عوامی شخصیت نے اس قسم کا دعویٰ کیا ہو۔ اس سے قبل سابق بھارتی وزیر اعظم مرارجی دیسائی بھی اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ وہ باقاعدگی سے اپنا پیشاب پیتے تھے۔
تاہم ماہرین صحت واضح طور پر خبردار کرتے ہیں کہ کسی بھی بیماری یا چوٹ کے علاج کے لیے سائنسی بنیادوں پر قائم طریقے ہی مؤثر اور محفوظ ہیں۔ غیر مصدقہ ذاتی تجربات کو عام کرنا نہ صرف عوام کو گمراہ کرتا ہے بلکہ ان کی صحت کو بھی شدید خطرے میں ڈال سکتا ہے۔