بالی ووڈ فلموں کو اگر آئٹم سانگز کے بغیر تصور کیا جائے تو کچھ کمی سی محسوس ہوتی ہے۔

مالائکہ اروڑا کے ”ہونٹ رسیلے“ سے لے کر کرینہ کپور کے ”فیوی کول سے“، سمانتھا کے ”او انٹاوا“ اور نورا فتیحی کے ”دلبر دلبر“ تک، یہ گانے نہ صرف فلموں کا حصہ بنے بلکہ پوری نسلوں کو جھومنے پر مجبور کر گئے۔

مشہور گانے ’بدتمیز دل‘ کے ترکش ورژن نے دھوم مچادی

ان گانوں میں کئی نامور اداکاراؤں نے پرفارم کیا، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ بھارت کی فلمی تاریخ کی سب سے پہلی آئٹم گرل کون تھیں؟

اگر آپ کے ذہن میں زینت امان، ہیلن یا بندو کا نام آ رہا ہے، تو ایک بار پھر سوچ لیجیے، کیونکہ بھارت کی پہلی آئٹم نمبر اسٹار تھیں میڈم آذوری وہ نام جس نے فلمی رقص کو مرکزی کردار سے الگ ایک پہچان دی۔

ماں نے خوف کے وقت ’یا علی مدد‘ پڑھنے کی تلقین کی، مہیش بھٹ کا انکشاف

میڈم آذوری 1930 کی دہائی میں منظرِ عام پر آئیں۔ بنگلور میں پیدا ہونے والی آذوری کی ماں ہندو برہمن نرس تھیں اور والد جرمن یہودی ڈاکٹر۔

والدین کے درمیان علیحدگی کے بعد وہ والد کے ساتھ رہنے لگیں جنہوں نے انہیں مغربی رقص جیسے بیلے ڈانس کی تربیت دی، مگر مشرقی رقص سیکھنے سے منع کیا۔ لیکن آذوری کا شوق راستہ نکال ہی لیتا تھا۔

انہوں نے مختلف رقص کی اقسام سیکھیں اور جلد ہی بمبئی (ممبئی) کی فلمی دنیا کا حصہ بن گئیں۔ ان کی پہلی فلم نادرا تھی، جس کے بعد وہ پردیسی سیاں، قتلِ عام، دی بمبے ٹاکیز اور نیا سنسار جیسی فلموں میں نظر آئیں۔

آذوری نے اپنی فنی زندگی میں 700 سے زائد فلموں میں کام کیا۔ وہ اپنی رقص کی صلاحیتوں کے لیے نہ صرف بھارت بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی جانی گئیں۔ ایک موقع پر انہیں برطانیہ کے شاہی محل بکنگھم پیلس میں پرفارمنس کے لیے بھی مدعو کیا گیا، جو ان کے فن کا عالمی اعتراف تھا۔

تقسیم ہند کے بعد میڈم آذوری نے ایک مسلمان شخص سے شادی کی اور راولپنڈی (پاکستان) منتقل ہو گئیں

بعد ازاں انہوں نے وہاں کلاسیکی رقص کی ایک اکیڈمی قائم کی، جہاں وہ سالوں تک نوجوانوں کو رقص کی تربیت دیتی رہیں۔

میڈم آذوری صرف ایک رقاصہ نہیں تھیں، وہ ایک ایسی فنکارہ تھیں جنہوں نے اس وقت میں اپنی شناخت بنائی جب فلمی دنیا میں خواتین رقاصاؤں کو محض تفریحی کردار سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے آئٹم نمبرز کو صرف گانے نہیں، ایک مکمل فن کی شکل دی۔

More

Comments
1000 characters