امریکہ کے مضافات اور جنگلات میں سرخ آنکھوں والے، شور مچانے والے پراسرار کیڑے سترہ سال بعد دوبارہ زمین سے باہر آنے کو تیار ہیں۔

آخری بار یہ کیڑے 2008 کی ابتدائی گرمیوں میں بڑی تعداد میں زمین سے نکلے تھے، جب دنیا مالی بحران کی زد میں تھی، آئی فون ایک عیاشی سمجھا جاتا تھا، اور جارج ڈبلیو بش امریکی صدر تھے۔

کھٹمل مزید ڈھیٹ ہوگئے، قابو اور ختم کرنے کے سارے ٹوٹکے بیکار ہونے لگے

اس سال بھی موسم بہار کے آغاز کے ساتھ ہی شہری سائنسی ایپ سکیڈا سفاری Cicada Safari کے مطابق ”بروڈ 14“ (Brood XIV) نامی جھنڈ کے ابتدائی کیڑے امریکہ کے جنوبی علاقوں میں نمودار ہو چکے ہیں۔ جیسے جیسے شمالی علاقوں میں زمین کی سطح کا درجہ حرارت بڑھے گا، لاکھوں مزید کیڑے سطح پر آ جائیں گے۔

یہ کیڑے ہیمیپٹیرا نامی حشراتی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں، جس میں بدبودار کیڑے، بیڈ بگز اور افیڈز شامل ہیں۔ انہیں اکثر غلطی سے ٹڈی دل سمجھا جاتا ہے۔

ایک غلط فہمی جو ابتدائی انگریز نوآبادیاتی دور سے چلی آ رہی ہے جب ان کے اچانک اور بڑے پیمانے پر ظاہر ہونے کو مذہبی آفات سے تشبیہ دی گئی تھی۔

ایک ٹن سونے کا سکّہ: دنیا سے اب تک کتنا سونا نکالا جاچکا؟ حیران کن انکشاف

دنیا بھر میں تقریباً 3,500 اقسام کی سکیڈا موجود ہیں، جن میں سے کئی کو اب تک نام بھی نہیں دیا گیا۔

تاہم، امریکہ کے مشرقی حصے میں پائے جانے والے 13 یا 17 سال بعد جمع ہو کر نکلنے والے دَورانیہ دار سکیڈا (Periodical Cicadas) دنیا میں اپنی نوعیت کے منفرد کیڑے ہیں۔

یونیورسٹی آف کنیکٹیکٹ کی ماہرِ حشرات کرس سائمن کے مطابق ان کے سوا صرف بھارت کے شمال مشرقی علاقے اور فجی میں دو اقسام پائی جاتی ہیں۔

کرس سائمن کہتی ہیں، “یہ ایک حیرت انگیز مظہر ہے، جو آپ اپنے بچوں کو دکھا سکتے ہیں، ان کی تبدیلی کے عمل کو دیکھ سکتے ہیں، اور سوچ سکتے ہیں کہ ان کا ارتقاء کیسے ہوا۔

سکیڈا بالغ زندگی میں نہ کاٹتے ہیں، نہ ڈنگ مارتے ہیں، اور نہ ہی ٹھوس غذا کھاتے ہیں۔ وہ صرف پانی پیتے ہیں۔ نر کیڑے خاص جھلیوں (tymbals) کے ذریعے تیز آوازیں پیدا کرتے ہیں، جنہیں ایمبولینس کے سائرن یا برقی اوزاروں کی آواز سے تشبیہ دی جاتی ہے۔

یہ کیڑے زمین میں سترہ سال گزارنے کے بعد چند ہفتوں کے لیے نکلتے ہیں تاکہ اپنی کھال بدلیں، افزائش کریں، اور پھر مر جائیں۔ ان کے انڈے درختوں سے گر کر دوبارہ مٹی میں دفن ہو جاتے ہیں، جہاں سے یہ چکر دوبارہ شروع ہوتا ہے۔

ان کے دفاع کا طریقہ ان کی بے تحاشہ تعداد ہے اتنی بڑی تعداد میں نکلتے ہیں کہ شکاری (پرندے، لومڑیاں، کچھوے وغیرہ) انہیں کھا کر تھک جاتے ہیں، اور باقی کیڑے محفوظ رہتے ہیں۔ اس طرح وہ ماحولیاتی نظام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

تاہم، انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے ان کا قدرتی نظام متاثر ہو رہا ہے۔ جنگلات کی کٹائی اور شہری ترقی نے ان کے قدرتی مسکن تباہ کر دیے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات بھی نمایاں ہو رہے ہیں، جس کے نتیجے میں کچھ کیڑے وقت سے پہلے یا بعد میں ظاہر ہو رہے ہیں، جن کی تعداد اتنی کم ہوتی ہے کہ وہ بچ نہیں پاتے۔

واشنگٹن جیسے علاقوں میں یہ غیر متوقع نموداریاں مختلف گروہوں کے ”پیوند زدہ منظرنامے“ کی شکل اختیار کر رہی ہیں، جو مستقبل میں ان کے وجود کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔

More

Comments
1000 characters