زندگی ایک مسلسل سفر ہے، جو بچپن کی معصومیت سے جوانی کی امنگوں تک اور وہاں سے عمرِ رواں کے سنجیدہ سوالوں تک پہنچتی ہے۔ کہیں نہ کہیں، یہ سفر ایک ایسے موڑ پر آ کھڑا ہوتا ہے جہاں انسان نہ تو مکمل کامیابی کا جشن منا سکتا ہے، نہ ہی ناکامی کا ماتم ختم کرسکتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جسے آج کی نفسیات کی زبان میں ’مڈ لائف کرائسس‘ کہا جاتا ہے، اور جذبات کی دنیا میں یہ ایک ایسا خاموش طوفان ہے جو انسان کے اندرون میں برپا ہوتا ہے۔
مڈ لائف کرائسس درحقیقت ایک ایسی کیفیت ہے جو اکثر افراد کو عمر کے درمیانی حصے، عموماً 40 سے 60 سال کے درمیان میں لاحق ہوسکتی ہے۔ اس دوران فرد اپنی زندگی کے بارے میں سنجیدہ سوالات کرنے لگتا ہے، کیا میں کامیاب ہوں؟ کیا میں نے وہ سب حاصل کر لیا جس کا خواب دیکھا تھا؟ کیا وقت میرے ہاتھ سے نکل چکا ہے؟ یہی سوچیں انسان کو ذہنی دباؤ، اضطراب یا جذباتی الجھن میں مبتلا کر سکتی ہیں۔
یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب آئینہ صرف چہرہ نہیں، عمر بھی دکھانے لگتا ہے۔ جب انسان کے خوابوں کی فہرست ہاتھ میں ہوتی ہے، مگر ان پر لگے ٹوٹے خوابوں کے نشان آنکھوں میں چبھتے ہیں۔ دل پوچھتا ہے،
’کیا یہی سب کچھ تھا؟ کیا واقعی میں کچھ کھو چکا ہوں؟‘
عورت ہو یا مرد، اس مرحلے پر دونوں کا دل اپنی شناخت کو تلاش کرتا ہے۔ ایک ماں، جو برسوں بچوں کی پرورش میں خود کو بھول گئی، اب خود سے سوال کرتی ہے، ’میں کہاں ہوں؟‘ ایک باپ، جو گھر کی دیواریں مضبوط کرتا رہا، اب اپنے خالی پن کو بہلانے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ کیفیت ہمیشہ شور کے ساتھ نہیں آتی، اکثر یہ خاموشی میں داخل ہوتی ہے۔ روزمرہ کی مصروفیت میں، اچانک کوئی پرانی تصویر، کوئی پرانا خواب، یا کسی اور کی کامیابی دیکھ کر انسان چونک جاتا ہے۔ دل کہتا ہے،
’ابھی کچھ باقی ہے، کچھ ادھورا ہے، کچھ اور ہونا چاہیے تھا‘
مگرگھبرانے یا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، یہ وقت صرف افسوس کرنے کا نہیں، بلکہ ایک نیا رخ طے کرنے کا ہے۔ یہ زندگی کا وہ سنگم ہے جہاں ماضی کی راکھ سے حال کی چنگاریاں نکال کر مستقبل کی روشنی بنائی جا سکتی ہے۔
اسکے حل کی طرف جانے سے پہلے ہم اس کے اسباب اور کیفیات پر کچھ بات کرلیتے ہیں۔ مڈ لائف کرائسس کے اسباب مختلف ہو سکتے ہیں، جن میں شامل ہیں، عمر کا بڑھنا، کیریئر میں رکاؤٹ یا اکتاہٹ، بچوں کا بڑا ہو جانا اور ایمپٹی نیسٹ (Empty Nest) کی کیفیت یعنی وہ والدین جن کے بچے بڑے ہو کر گھر سے دور چلے گئے ہوں، شادی یا تعلقات میں جذباتی فاصلے، ماضی کی ناکامیوں کا بوجھ یا مستقبل کا خوف جیسے اسباب شامل ہیں۔
اس کے ساتھ ہی آپ مسلسل بےچینی یا اداسی محسوس کرنے لگتے ہیں، خود اعتمادی میں کمی کا سامنا بھی ہوتا ہے، ماضی کے فیصلوں پر افسوس، اچانک نئی دلچسپیاں یا تبدیلیوں کی خواہش، طرزِ زندگی، کیریئر یا رشتوں میں غیر متوقع فیصلے، ان سب کیفیات سے انسان دوچار ہوتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق مردوں میں یہ کیفیت زیادہ تر پیشہ ورانہ یا مالی معاملات کے حوالے سے ظاہر ہوتی ہے، جب کہ خواتین اسے ذاتی پہچان، عمر رسیدگی یا خاندانی ذمہ داریوں سے جڑے احساسات کی صورت میں محسوس کرتی ہیں۔
اگراس کیفیت کا درست طریقے سے سامنا نہ کیا جائے تو یہ ڈپریشن، طلاق یا رشتوں کا خاتمہ، کیریئر میں منفی تبدیلی، اور خود کو نقصان پہنچانے جیسے اقدامات کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔
لیکن جیسا کہ ہم نے اپنے مضمون کے شروع میں کہا تھا کہ یہ وقت گھبرانے یا پریشان ہونے کا نہیں، بلکہ ایک نیا انداز، نئی اور مثبت سوچ اپنانے کا ہے اور مستقبل کو روشن کرنے کا ہے۔
اس کو بہترین انداز سے حل کرنے کے لئے سب سے پہلے سیلف ریفلیکشن کریں، خود سے ایمانداری سے سوال کریں کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ کیا چیز آپ کو خوشی دیتی ہے؟ آپ اپنی ترجیحات کو ترتیب دیں، اپنی زندگی کے مقاصد نئے سرے سے متعین کریں اور صرف ضروری چیزوں پر توجہ دیں۔
مثلا سب سے پہلے خود کو پرسکون رکھنے کے لئے صحت پر توجہ دیں اور جسمانی سرگرمی، نیند اور متوازن خوراک سے ذہنی سکون حاصل کرنے کا دروازہ کھولیں۔ خاندان اور دوستوں سے رابطے مضبوط کریں، سننے اور محسوس کرنے کا وقت نکالیں، کیونکہ اکثر انسان رشتوں کی خاموشیوں میں ہی الجھ جاتا ہے، جذباتی سہارے اور گفتگو سے بہتری آ سکتی ہے۔ خود کو معاف کریں، اپنی تعریف کرنا سیکھیں، زندگی کی جنگ میں جو کچھ حاصل کیا، اس کی قدر کریں۔ اوراگرپھر بھی آپ صورتحال میں زیادہ بگاڑ محسوس کر رہے ہیں تو کونسلنگ کی طرف آئیں اور لائف کوچ سے رجوع کریں۔
یاد رکھیں مڈ لائف کرائسس کوئی بیماری نہیں، بلکہ زندگی کا ایک فطری مرحلہ ہے۔ اگر اسے سمجھداری، خود آگاہی اور مثبت سوچ کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ وقت، زندگی کے ایک نئے باب کا آغاز بھی بن سکتا ہے۔ ایسے میں خود کو سمجھنا، قبول کرنا اور آگے بڑھنے کی راہ اپنانا سب سے مؤثر عمل ہے۔