سانپ کا زہر دنیا بھر میں ہزاروں انسانوں کی جان لے لیتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، ہر سال تقریباً 1.4 لاکھ افراد سانپ کے کاٹنے سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، جب کہ اس سے کہیں زیادہ افراد مستقل معذوری یا جسمانی نقصان کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان حالات میں سانپ کے زہر کے خلاف مؤثر، سستا اور عالمی سطح پر قابلِ استعمال اینٹی وینم (زہر کا تریاق) تیار کرنا ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق، ایک امریکی شہری ٹم فریڈی نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اس مسئلے کے ممکنہ حل کی راہیں کھولی ہیں۔ انھوں نے پچھلے بیس برسوں میں جان بوجھ کر خود کو 700 سے زائد بار سانپ کے زہر سے متاثر کیا اور 200 سے زیادہ بار سانپوں سے کٹوایا۔ ان کا مقصد اپنے جسم میں ایسی اینٹی باڈیز پیدا کرنا جو زہر کے خلاف قدرتی مدافعت پیدا کر سکیں۔

زہر کے خلاف جنگ

ٹم فریڈی دراصل ایک سابق ٹرک مکینک ہیں، جنھوں نے ابتدا میں یوٹیوب پر ایک ویڈیو سیریز کے ذریعے اپنے تجربات دکھانے شروع کیے۔ وہ زہریلے سانپوں جیسے کوبرا، ممبا اور کریٹ کے زہر کو انجیکشن کے ذریعے اپنے جسم میں داخل کرتے رہے۔ ایک موقع پر، جب وہ دو مختلف کوبرا سانپوں کے زہر سے متاثر ہوئے، تو انھیں کوما کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی لمحے انھیں یہ احساس ہوا کہ ان کی مدافعتی قوت میں کوئی خاص بات ضرور ہے، جو شاید انسانیت کے لیے کارآمد ہو سکتی ہے۔

اسی دوران، بایوٹیک کمپنی Sentivax کے سی ای او اور معروف امیونولوجسٹ، ڈاکٹر جیکب گلانویل، نے فریڈی کے تجربات کا مشاہدہ کیا اور ان سے رابطہ کیا۔ ڈاکٹر جیکب کے مطابق، اگر کسی انسان نے قدرتی طور پر مختلف اقسام کے زہروں کے خلاف مدافعتی نظام پیدا کر لیا ہے، تو وہ ٹم فریڈی ہی ہو سکتے ہیں۔

ڈاکٹر گلانویل نے فریڈی کے خون سے اینٹی باڈیز اخذ کرنے کے لیے نمونے حاصل کیے، تاکہ ان کا تجزیہ کر کے ایک ہمہ گیر اینٹی وینم یعنی زہر کے خلاف تریاق تیار کیا جا سکے۔ اس عمل میں فریڈی کو مزید زہر لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ صرف ان کے جسم میں موجود مدافعتی مواد کافی تھا۔

تجربات اور کامیابیاں

تحقیق کے دوران، سائنسدانوں نے ان اینٹی باڈیز کو الگ کیا جو نیوروٹاکسنز کے خلاف مؤثر تھیں۔ نیوروٹاکسنز وہ زہریلے مادے ہوتے ہیں جو اعصابی نظام کو متاثر کرتے ہیں، اور یہ عموماً ’ایلاپڈ‘ نسل کے سانپوں میں پائے جاتے ہیں، جیسے کہ کوبرا، ممبا، کریٹ، تائیپن، اور مرجان سانپ۔

تحقیق میں شامل ٹیم نے دنیا کے 19 سب سے خطرناک ایلاپڈ سانپوں کے زہر کو چوہوں پر آزمایا، جنھیں اینٹی وینم کاک ٹیل دیا گیا تھا۔ حیرت انگیز طور پر، یہ کاک ٹیل 13 اقسام کے زہر کے خلاف مکمل طور پر مؤثر ثابت ہوا، جب کہ باقی 6 اقسام کے خلاف جزوی مؤثریت دیکھی گئی۔

درپیش چیلنجز

اس کامیابی کے باوجود، ماہرین کے مطابق ابھی مزید کام باقی ہے۔ ایک مکمل عالمی اینٹی وینم کے لیے صرف نیوروٹاکسنز پر قابو پانا کافی نہیں۔ زہریلے سانپوں کی ایک بڑی تعداد ’وائپر‘ نسل سے تعلق رکھتی ہے، جن کے زہر میں ’ہیموٹاکسنز‘ اور ’سائٹو ٹاکسنز‘ پائے جاتے ہیں، جو خون اور جسمانی خلیات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر پیٹر کوونگ کے مطابق، یہ تحقیق انتہائی امید افزا ہے، اور ممکن ہے کہ اگلے 10 سے 15 سالوں میں ہم ایک مکمل، یونیورسل اینٹی وینم تیار کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

انسانیت کے جزبے سے سرشار ٹم فریڈی کے الفاظ، بی بی سی کی رپورٹ میں درج ہیں، ’میں مرنا نہیں چاہتا تھا، میں اپنی انگلی یا جسم کا کوئی حصہ کھونا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن میں یہ سب کچھ ان لوگوں کے لیے کر رہا ہوں جنھیں زہر کا تریاق وقت پر نہیں ملتا۔‘

لیورپول اسکول آف ٹراپیکل میڈیسن کے پروفیسر نک کیسویل کے مطابق، اگرچہ انسانی جسم میں تیار ہونے والی اینٹی باڈیز ایک مؤثر متبادل ثابت ہو سکتی ہیں، تاہم بڑے پیمانے پر انسانی آزمائشیں اور مزید تحقیق ابھی ضروری ہیں۔

More

Comments
1000 characters