ایک حالیہ تحقیق کے مطابق، ایک مہلک فنگس، یورپ، ایشیا اور امریکہ کے کچھ حصوں میں پھیل سکتا ہے، جو بڑھتی ہوئی درجہ حرارت کی وجہ سے کمزور لوگوں کو شدید سانس کے مسائل کا شکار بنا سکتا ہے۔ تحقیق کے مطابق Aspergillus fumigatus نامی فنگس یا پھپھوندی گرم اور مرطوب آب و ہوا میں پنپتی ہے اور یہ انسانی پھیپھڑوں میں خطرناک انفیکشن کا سبب بن سکتی ہے، خاص طور پر ان افراد میں جن کا مدافعتی نظام کمزور ہے یا جو دمہ اور سیسٹک فائبروسس جیسے امراض کا شکار ہیں۔

اس تحقیق میں شامل مصنف نارمن وان رائن نے غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خبردار کیا کہ دنیا ایک ایسے ’ٹِپنگ پوائنٹ‘ کی طرف بڑھ رہی ہے جہاں فنگل (پھپھوندی) امراض کا پھیلاؤ معمول بن جائے گا۔

انہوں نے کہا، ’ہم سیکڑوں ہزاروں جانوں کے خطرے کی بات کر رہے ہیں، اور آئندہ پچاس سالوں میں یہ بدل جائے گا کہ کون سی چیزیں کہاں اگتی ہیں اور انسان کس قسم کی بیماریوں کا شکار ہوتا ہے۔‘

ماہرین کے مطابق ’اسپرجیلس‘ وہ نایاب صلاحیت رکھتی ہے کہ وہ 37 ڈگری سینٹی گریڈ پر، یعنی انسانی جسم کے اندرونی درجہ حرارت پر بھی بخوبی نشوونما پا سکتی ہے۔ اسے کمپوسٹ جیسی گرم جگہوں میں بھی تیزی سے بڑھتے دیکھا گیا ہے، اور حیرت انگیز طور پر یہ چرنوبل کے نیوکلیئر ری ایکٹرز جیسے تابکار ماحول میں بھی زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

فنگل دنیا، ایک پراسرار خطرہ

تحقیق میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ پھپھوندی کی دنیا ابھی تک سائنسی طور پر بہت حد تک غیر دریافت شدہ ہے۔ اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 15 لاکھ سے 38 لاکھ اقسام کی فنگس موجود ہیں، جن میں سے صرف 10 فیصد اقسام ہی دریافت کی جا چکی ہیں، اور بہت کم اقسام کی جینیاتی ساخت کی تحقیق ہوئی ہے۔

پروفیسر ایلین بگنیل، جو ایکسپٹر یونیورسٹی میں میڈیکل مائیکولوجی سینٹر کی شریک ڈائریکٹر ہیں، کہتی ہیں ’فطری ماحول میں اس پھپھوندی کا طرزِ زندگی اسے انسانی پھیپھڑوں میں زندہ رہنےکے لئے نہایت موزوں جگہ ہے۔‘

تحقیق کے مطابق اگر دنیا میں موجودہ حدت اور ایندھن کے استعمال کا رجحان برقرار رہا، تو سال 2100 تک ’اسپرجیلس‘ اپنی موجودگی میں 77 فیصد تک اضافہ کر سکتی ہے۔ اس سے یورپ میں تقریباً 90 لاکھ افراد اس بیماری کے خطرے میں آ سکتے ہیں۔

ادویات کی کمی، ایک خاموش بحران

بدقسمتی سے، فنگل انفیکشنز کے علاج کے لیے درکار دواؤں کی تحقیق میں سرمایہ کاری بہت کم ہے، کیونکہ اسے مالی لحاظ سے غیر منافع بخش سمجھا جاتا ہے۔ اس وجہ سے نئی اینٹی فنگل ادویات کی تیاری انتہائی سست روی کا شکار ہے۔

دنیا ایک خاموش لیکن مہلک خطرے کی دہلیز پر

ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو یہ مہلک فنگس یا پھپھوندی مستقبل قریب میں عالمی صحت کے لیے ایک سنگین چیلنج بن سکتی ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ، فطری ماحولیاتی نظام میں بگاڑ، اور ادویات کی عدم دستیابی اس صورتحال کو مزید سنگین بنا سکتے ہیں۔

کیا ہم اس نئے عالمی چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں؟

یہ ایک سوال ہے جو حکومتوں، سائنسدانوں اور معاشروں کو ابھی سے سوچنا ہوگا۔

More

Comments
1000 characters