پاکستانی فیشن انڈسٹری کو عالمی سطح پر متعارف کروانے والے معروف ڈیزائنر دیپک پروانی اُن چند شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے نہ صرف ملبوسات کے ذریعے ملک کی نمائندگی کی بلکہ اداکاری میں بھی اپنی پہچان بنائی۔
1974 میں میرپور خاص، سندھ میں ایک سندھی ہندو خاندان میں پیدا ہونے والے دیپک پروانی نے فیشن ڈیزائننگ کی دنیا میں وہ مقام حاصل کیا جس نے پاکستان کے فیشن کو عالمی سطح پر متعارف کرایا۔ 2004 میں مقبول ڈراما ’میرے پاس پاس‘ سے اداکاری کے میدان میں قدم رکھتے ہی انہوں نے یہاں بھی اپنی شناخت مستحکم کی۔
کچھ عرصہ قبل ایک انٹرویو میں دیپک پروانی نے بھارتی معیارِ زندگی کو پاکستان سے بہتر قرار دے کر خاصی تنقید سمیٹی، لیکن حالیہ پاک-بھارت کشیدگی کے دوران انہوں نے نہ صرف بھارتی بیانیے کو مسترد کیا بلکہ اپنے طنزیہ اور جاندار جوابات سے عوام کی توجہ بھی حاصل کی۔
بھارتی سپراسٹار بھی پاکستانی فیشن ڈیزائنر کے دلدادہ نکلے
پہلگام حملے کا جھوٹا الزام پاکستان پر لگانے کے بعد جب بھارت نے 7 اور 8 مئی کو پاکستان میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا اور اس کارروائی کو ’آپریشن سندور‘ کا نام دیا، تو یہ نہ صرف سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنا بلکہ دیپک پروانی نے بھی طنز کے تیر چلائے۔ ’ایکس‘ پر اپنی پوسٹ میں انہوں نے کہا، ’آپ سندور لے آئیں، پر منگل سوتر تو ہم نے ہی پہنانا ہے‘۔
یہ جملہ جہاں کچھ افراد کو تفریح فراہم کر گیا، وہیں ایک صارف نے اس بیان کو عورت دشمنی سے تعبیر کیا۔ دیپک نے فوری جواب دیتے ہوئے لکھا، ’اس کا عورت سے نفرت سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ مزاح ہے۔ حسِ مزاح پیدا کرو، اور چپ چاپ جاؤ یہاں سے‘۔
ایک اور صارف کے ’قومی اثاثہ‘ قرار دینے کے مطالبے پر دیپک نے چٹکلہ چھوڑا، ’پاگل ہو کیا؟ اگر انہوں نے مجھے توشہ خانہ میں رکھ دیا تو‘۔
فیشن ڈیزائنر نومی انصاری کے خلاف سوا ارب روپے کے سیلز ٹیکس فراڈ کا مقدمہ درج
مگر دیپک پروانی صرف طنز و مزاح تک محدود نہیں رہے۔ ایک سنجیدہ پوسٹ میں انہوں نے جنگ کی ہولناکی پر بھی بات کی اور کہا، ’جنگ میں کوئی جیتتا یا ہارتا نہیں، صرف لوگ مرتے ہیں‘۔