حالیہ آثارِ قدیمہ کی ایک حیرت انگیز دریافت نے ابتدائی عیسائیت کے بارے میں ایک پرانے اور قائم شدہ تصور کو چیلنج کر دیا ہے۔ یہ تصور کہ شدت پسند روحانی مشقیں، جن میں خود کو اذیت دینا، بھوک برداشت کرنا، یا جسمانی تکالیف اٹھانا شامل ہے، صرف مردوں سے مخصوص تھیں، اب متزلزل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
یروشلم کے قدیم شہر کے قریب ایک بازنطینی دور کی خانقاہ میں ماہرینِ آثارِ قدیمہ کو ایک ایسی لاش ملی ہے جس کے جسم کے گرد زنجیریں لپٹی ہوئی تھیں۔ یہ خانقاہ غالباً 350 سے 650 عیسوی کے درمیان فعال رہی ہوگی۔ خانقاہ میں دفن دیگر لاشوں کی طرح اس لاش کو بھی ایک مذہبی شخصیت کا مقام حاصل تھا، مگر اس لاش کی حالت اور زنجیروں کی موجودگی نے اسے منفرد اور خاص بنایا۔
ماہرین آثار قدیمہ چین کے پہلے شہنشاہ کا مقبرہ کھولنے سے خوفزدہ کیوں؟
عیسائیت کے ابتدائی دور میں کئی مرد صوفیاء اور رہبان یا مونکس ایسے گزرے ہیں جنہوں نے دنیاوی آسائشوں سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے شدید جسمانی اذیت کو خدا سے قربت کا ذریعہ بنایا۔ اس طرزِ عمل کو ’سنیاسی‘ یا ’تزکیہ نفس کے لیے جسمانی ریاضت‘ کہا جاتا ہے۔ ایسے اعمال میں مسلسل روزہ رکھنا، ساری رات عبادت کرنا، خود کو تکلیف یا اذیت دینا، یا یہاں تک کہ پتھروں سے خود کو باندھ لینا شامل تھا۔
یہ اعمال آج کے زمانے میں ناقابلِ فہم اور شدید قرار دیے جا سکتے ہیں، لیکن اُس وقت یہ روحانیت کی معراج سمجھے جاتے تھے۔ تاہم تاریخی حوالوں اور تحریروں میں ان اعمال کو صرف مردوں سے منسوب کیا جاتا رہا ہے۔ مؤرخین کا ماننا تھا کہ خواتین کو اس قسم کی مذہبی ریاضتوں میں شامل ہونے کی اجازت نہیں تھی یا وہ اس میں شامل نہیں ہوتی تھیں۔
قدیم مسجد کی دریافت نے اسرائیلیوں کو حیرت میں مبتلا کردیا
خانقاہ میں دریافت ہونے والی لاش کو سائنسی طور پر پرکھنے کا عمل شروع ہوا۔ بدقسمتی سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لاش اس قدر خراب ہو چکی تھی کہ جسم کی شناخت کے لیے ضروری ہڈیوں، خاص طور پر پیلوِس کی ہڈی، محفوظ نہ رہ سکی۔ تاہم، ماہرین کے پاس شناخت کے لیے ایک دانت اور تین ریڑھ کی ہڈیاں موجود تھیں۔
یہاں جدید سائنسی ٹیکنالوجی نے ایک نیا راستہ کھولا۔ ڈاکٹر پاؤلا کوٹلی اور ان کی ٹیم نے ایک تکنیک ایجاد کی تھی جسے ’امیلوجینن پروٹین کا تجزیہ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ پروٹین دانت کی سطح پر بنتا ہے اور اس میں مردوں اور عورتوں کے درمیان معمولی فرق ہوتا ہے۔ چونکہ مردوں میں ایک X اور ایک Y کروموسوم ہوتا ہے جبکہ عورتوں میں دو X کروموسوم ہوتے ہیں، اس لیے اگر دانت میں Y کروموسوم سے جڑا امیلوجینن پروٹین پایا جائے تو یہ مرد ہونے کا ثبوت ہوتا ہے۔
لیکن اس زنجیروں میں جکڑی لاش کے دانت میں ’وائی-لنکڈ امیلوجینن‘ نہیں ملا۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ لاش غالباً ایک عورت کی ہے۔
سائنس میں مکمل یقین کے ساتھ کچھ کہنا اکثر مشکل ہوتا ہے، خاص طور پر جب بات 1600 سال پرانی باقیات کی ہو۔ ماہرین نے بھی اس تحقیق میں مکمل یقین کا اظہار نہیں کیا بلکہ کہا کہ ’یہ بہت زیادہ ممکن ہے کہ یہ باقیات ایک خاتون کی ہیں۔‘ چونکہ وقت کے ساتھ کچھ پروٹین تباہ بھی ہو سکتے ہیں، اس لیے یہ امکان موجود ہے کہ ’وائی-لنکڈ امیلوجینن‘ موجود تو تھا، مگر محفوظ نہ رہ سکا۔ تاہم، موجود شواہد کی روشنی میں ماہرین کافی حد تک مطمئن ہیں کہ یہ خاتون ہی ہیں۔
قدیم ترین زبان کی دریافت نے ماہرین کو بھی حیران کردیا
یہ دریافت عیسائیت کی ابتدائی تاریخ میں خواتین کے کردار پر نئی روشنی ڈالتی ہے۔ اب یہ کہنا ممکن ہو گیا ہے کہ سخت روحانی مشقیں اور جسمانی اذیت صرف مردوں کا میدان نہیں تھا۔ خواتین بھی اتنے ہی عزم اور روحانی جذبے کے ساتھ ان راستوں پر چلی تھیں، جنہیں اب تک صرف مردوں سے منسوب کیا جاتا رہا ہے۔
یہ دریافت نہ صرف ایک تاریخی غلط فہمی کو درست کرتی ہے بلکہ ہمیں یہ سمجھنے پر مجبور کرتی ہے کہ خواتین نے ہمیشہ سے مذہبی، روحانی اور فکری میدانوں میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔