مصر کے علاقے ’سقارہ‘ میں واقع ایک قدیم کھدائی کے مقام پر ماہرینِ آثارِ قدیمہ اُس وقت حیرت زدہ رہ گئے جب ایک جعلی دروازے کے پیچھے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے شہزادے کی قبر دریافت ہوئی۔
یہ انکشاف مصر کی وزارتِ سیاحت و نوادرات نے اپنی فیس بک پوسٹ کے ذریعے اپریل میں کیا۔ مذکورہ قبر، گیزہ گورنریٹ کے علاقے سقارہ کے آثارِ قدیمہ کے مقام پر دریافت ہوئی۔
یہ قبر ’وس اف را‘ (Waser Ef Ra) نامی شہزادے کی تھی، جو کہ فرعون ’یوسرکاف‘ کا بیٹا تھا۔ یاد رہے کہ یوسرکاف مصر کے پانچویں خاندان کا بانی تھا، جو پچیسویں صدی قبل مسیح کے اوائل سے چوبیسویں صدی قبل مسیح کے وسط تک قائم رہا۔
ماہرین آثار قدیمہ انسانی ڈھانچے کی جنس کیسے بتا دیتے ہیں؟
جعلی دروازہ گلابی گرینائٹ سے تیار کردہ تھا اور اس پر ہیروگلیف رسم الخط میں شہزادے کا نام اور اعزازات تحریر تھے۔ شہزادے کو ’وراثتی شہزادہ، بوتو اور نکھب کا گورنر، شاہی کاتب، وزیر، منصف، اور مذہبی نغمہ خواں‘ کے القابات سے نوازا گیا تھا۔
مزید کھوج میں ماہرین کو نہ صرف فرعون جوسر(Djoser)، ان کی بیوی اور دس بیٹیوں کے مجسمے ملے، بلکہ سرخ گرینائٹ سے بنی ایک میز بھی ملی جس پر تدفینی نذرانوں کی فہرست درج تھی۔ اس کے علاوہ ایک بڑا سیاہ گرینائٹ کا مجسمہ بھی برآمد ہوا۔
فیس بک پوسٹ کے مطابق، ’دہانے کے شمال میں ایک انتہائی منفرد دریافت ہوئی، تیرہ گلابی گرینائٹ کے مجسمے ایک بلند پُشت بنچ پر براجمان حالت میں ملے۔ ان کے درمیان شہزادے کی بیویاں موجود تھیں، جن کے سروں کی بلندی دیگر مجسموں سے زیادہ تھی، جبکہ دو مجسمے سر کے بغیر تھے، جن کے سامنے ایک الٹا پڑا ہوا سیاہ گرینائٹ کا مجسمہ بھی دریافت ہوا، جس کی اونچائی تقریباً 1.35 میٹر ہے۔‘
سو سال بعد مصر میں فرعون کا مقبرہ دریافت
مصر کے وزیرِ سیاحت و نوادرات، شریف فتحی نے اس عظیم دریافت پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ دریافت قدیم مصری تہذیب کے ایک اہم تاریخی دور کے نئے رازوں کو آشکار کرتی ہے۔‘
یہ دریافت سال 2025 کی کئی اہم مصری آثارِ قدیمہ کی دریافتوں میں سے ایک ہے۔ اس سے قبل مارچ میں ایک 3,000 سال پرانا کان کنی کا مرکز دریافت ہوا تھا، جس میں قدیم رہائش گاہیں، کاریگر خانوں اور حماموں کے آثار شامل تھے۔ اس کے علاوہ، یونیورسٹی آف پینسلوینیا کے ایک ماہر آثارِ قدیمہ نے ایک گمشدہ فرعون کی قبر بھی دریافت کی ہے، جو کہ ایک اور شاندار کامیابی ہے۔
یہ دریافت نہ صرف مصر کی عظیم تاریخ کو دنیا کے سامنے لانے میں مدد دے گی، بلکہ تحقیق، سیاحت اور عالمی دلچسپی کے نئے دروازے بھی کھولے گی۔