جب ہم مگرمچھوں کا تصور کرتے ہیں، تو ہمارے ذہن میں عموماً ایک لمبے، چپٹے جسم کا حامل، پانی میں تیرتا ہوا یا زمین پر آہستہ آہستہ رینگتا ہوا جانور آتا ہے۔ لیکن حالیہ سائنسی تحقیق نے ماقبل تاریخ کے مگرمچھوں کی ایسی تصویر پیش کی ہے جو نہ صرف حیرت انگیز ہے بلکہ ارتقائی حیاتیات کے کئی رازوں سے پردہ بھی اٹھاتی ہے۔
دو ٹانگوں پر چلنے والے مگرمچھ؟
جی ہاں، 2020 میں بین الاقوامی تحقیقاتی ٹیم نے جنوبی کوریا میں موجود تقریباً 12 کروڑ سال پرانے فوسلز کا مطالعہ کیا ہے جن سے یہ بات سامنے آئی کہ کچھ قدیم مگرمچھ دو پچھلی ٹانگوں پر چلتے تھے، بالکل ویسے ہی جیسے ڈائناسور۔ یہ جانور اپنے اگلے پنجوں کو زمین سے اٹھائے رکھتے تھے، اور ان کے پاؤں کے نشانات میں کسی چار ٹانگوں والے جانور کی کوئی علامت نہیں پائی گئی۔
جسے اللہ رکھے: مگرمچھ کے منہ میں90 منٹ تک رہنے والی خاتون
سائنس دانوں کا کیا کہنا ہے؟
اس تحقیق کی سربراہی کرنے والے ماہرین کے مطابق، یہ نقوش ’’باتراکوپوس‘‘ (Batrachopus) نامی قدیم مگرمچھوں کے قریبی رشتہ داروں کے تھے۔ ان کے قدموں کے نشانات خاصے بڑے اور گہرے تھے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جانور کم از کم تین میٹر لمبے تھے اور تیز رفتاری سے چلنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
یہ دریافت ارتقائی سائنس کے لیے ایک انقلابی حیثیت رکھتی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ قدیم مگرمچھ ممکنہ طور پر زمین پر زیادہ متحرک زندگی گزارنے کے لیے تیار ہوئے تھے۔ ان کا دو ٹانگوں پر چلنا اس بات کی علامت ہو سکتا ہے کہ کچھ مگرمچھ نما رینگنے والے جانور زمینی ماحول میں شکار یا دفاع کے لیے زیادہ سرگرم کردار ادا کرتے تھے۔
پاکستان میں پہلی بار ’مگرمچھوں‘ کی فارمنگ کی شروعات، اس سے کیا فائدہ ہوگا؟
کیا واقعی یہ ’مگرمچھ‘ تھے یا ڈائناسورز ؟
یہاں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ شروع میں سائنس دان ان نقوشِ پا کو تھیروپوڈ ڈائناسورز (دو ٹانگوں پر چلنے والے گوشت خور ڈائناسورز) سے منسوب کر بیٹھے تھے۔ لیکن جب نشانوں کا تفصیلی تجزیہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان میں مگرمچھوں کے پنجوں جیسی ساخت موجود تھی، اور ڈائناسور کے پنجوں سے مختلف تھی۔
مگر مچھ انسان بن کر لوگوں کا شکار کر رہے ہیں؟ حیرت انگیز ویڈیو وائرل
یہ دریافت نہ صرف مگرمچھوں کی ارتقائی تاریخ پر روشنی ڈالتی ہے بلکہ زمین پر رہنے والے جانوروں کی حرکات و سکنات کے متعلق ہمارے تصورات کو بھی بدل دیتی ہے۔ قدیم مگرمچھوں کی دو ٹانگوں پر چلنے کی صلاحیت اس بات کا ثبوت ہے کہ قدرتی انتخاب اور ماحول نے جانوروں کو کس قدر متنوع شکلوں میں ڈھالا ہے۔