2015 میں یورپ میں پناہ گزینوں کے بحران کے عروج پر جب 13 لاکھ سے زائد افراد یورپ میں پناہ کے متلاشی تھے ان میں اکثریت شامی شہریوں کی تھی، اُس وقت 25 سالہ ہسپانوی رضاکار پاؤ الیکم گارسیا یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں اُن کی مدد کر رہے تھے۔ وہ انہیں رہائش، کھانا، زبان سیکھنے اور فنونِ لطیفہ کی سرگرمیوں میں مدد فراہم کر رہے تھے۔
اسی دوران ایک پرانی عمارت میں قائم عارضی پناہ گاہ میں گارسیا کی ملاقات ایک 70 سالہ شامی خاتون سے ہوئی جنہوں نے انکشاف کیا کہ ان کے خاندان کی زیادہ تر یادگار تصویریں سفر کے دوران ضائع ہوگئیں۔ انہوں نے کہا، ’میں اپنی زندگی سے خوش ہوں لیکن مجھے ڈر ہے کہ میرے نواسے پوتے ساری زندگی پناہ گزین بنے رہیں گے اور انہیں کبھی معلوم نہ ہوگا کہ وہ کہاں سے آئے ہیں۔‘
یہ بات گارسیا کے ذہن میں نقش ہو گئی اور برسوں بعد وہ بارسلونا واپس آکر اپنی تخلیقی اسٹوڈیو ڈومیسٹک ڈیٹا اسٹریمرز (DDS) کے ذریعے ایک ایسا منصوبہ بنانے لگے جو کھوئی ہوئی یا کبھی ریکارڈ نہ کی جانے والی یادوں کو مصنوعی ذہانت کے ذریعے تصویری شکل میں دوبارہ زندہ کر سکے۔
2022 میں DDS نے ”Synthetic Memories“ (مصنوعی یادیں) کے نام سے ایک منصوبہ شروع کیا جس کا مقصد اے آئی ٹیکنالوجی (جیسے DALL-E 2 اور Flux) کی مدد سے اُن یادوں کی تصویری تخلیق کرنا تھا جو کبھی قید نہیں کی گئیں یا وقت کے ساتھ کھو گئیں۔
پروگرام کے تحت ہر انٹرویو میں شریک شخص سے ان کی قدیم یادیں دریافت کی جاتیں اور پھر اے آئی ماہرین کے ذریعے ان مناظر کو تصویری شکل دی جاتی، البتہ چہروں کو دھندلا یا پیچھے سے دکھایا جاتا تاکہ واضح کیا جا سکے کہ یہ تصاویر اصل نہیں بلکہ مصنوعی تخلیق ہیں۔
گارسیا کے مطابق، ’یادیں ہماری شناخت کی بنیاد ہوتی ہیں اور ان کی غیر موجودگی ایک نسل کو اپنی جڑوں سے محروم کر سکتی ہے۔‘ اس منصوبے کا مقصد تاریخ کو دوبارہ لکھنا نہیں بلکہ ذاتی احساسات اور جذبات کو تصویری روپ دینا ہے۔
تحقیقات سے معلوم ہوا کہ زیادہ دھندلی اور جذباتی انداز میں تخلیق شدہ تصاویر افراد میں زیادہ گہرا تعلق پیدا کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ تجربات یادداشت کی کمزوری کے شکار افراد (مثلاً ڈیمینشیا مریضوں) پر بھی آزمائے گئے جس سے مثبت نتائج سامنے آئے۔
اس پروگرام کے تحت 105 سالہ خاتون نے اپنی پہلی ٹرین دیکھنے کی یاد کو دوبارہ زندہ کیا جبکہ ایک اور خاتون نے عدالت کا وہ منظر تخلیق کروایا جہاں وہ اپنے ظلم کرنے والے رشتہ دار کو دیکھنا چاہتی تھیں۔
ایک اور اہم پہلو ان کارکنوں کی یادیں تھیں جنہوں نے آمریت کے خلاف کام کیا۔ 74 سالہ خوسے ویالیخو کالدیروں جو فرانکو آمریت کے خلاف مزدور تحریک کا حصہ تھےانہوں نے یاد کیا کہ کیسے وہ خفیہ طور پر جنگلات میں ملاقاتیں کرتے تھے۔ ان ملاقاتوں کی کوئی تصویری شہادت موجود نہیں لیکن اب اے آئی کی مدد سے ایک بلیک اینڈ وائٹ تصویر تخلیق کی گئی جس میں جنگل میں بیٹھے کارکنان دکھائے گئے ہیں۔ ویالیخو نے کہا، ’یہ تصویر دیکھ کر میں جیسے وقت کے سرنگ میں واپس چلا گیا۔‘
گارسیا اس خدشے کا اظہار کرتے ہیں کہ جہاں پہلے تصویریں کم ہوتی تھیں آج کے ڈیجیٹل دور میں تصاویر کی بھرمار ہے، یہاں تک کہ ایک بچی کی پانچ سال کی عمر میں 25,000 تصاویر ہوتی ہیں۔ ’آنے والے وقتوں میں اصل مسئلہ یہ ہوگا کہ اتنی تصاویر میں سے اصل یاد کون سی ہے؟‘
تاہم آج کے وقت میں یہ منصوبہ ان افراد کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے جو اپنے ماضی کو سمجھنا چاہتے ہیں یا نوجوان نسل کو اس سے روشناس کروانا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ ویالیخو کہتے ہیں: ”یادداشت مستقبل کا ہتھیار ہے۔“