جب زندگی اچانک کسی ایسی راہ پر لے جائے جہاں مالی نقصان یقینی دکھائی دے، تو انسان یا تو ہار مان لیتا ہے یا کوئی نئی راہ تلاش کرتا ہے۔ آج کی ڈیجیٹل دنیا میں مصنوعی ذہانت، خاص طور پر چیٹ جی پی ٹی جیسے ٹولز، صرف سوالات کے جواب دینے کے لیے نہیں بلکہ ایک ذہین معاون کے طور پرکام انجام دے رہے ہیں۔

ایسا ہی ایک واقعہ اُس وقت منظرِ عام پر آیا جب ایک ریڈٹ صارف نے ذہنی بیماری کے باعث اپنا بین الاقوامی سفر منسوخ کیا اور ڈھائی ہزار ڈالر کے نقصان کے دہانے پر کھڑا تھا۔ لیکن پھر اُس نے چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے وہ کر دکھایا جس کی کسی نے توقع نہ کی تھی، ایک مؤثر خط کے ذریعے ناقابلِ واپسی رقم واپس حاصل کر لی۔ یہ کہانی صرف ایک شخص کی کامیابی نہیں بلکہ ایک نئے دور کی دستک بھی ہے۔

چیٹ جی پی ٹی نے خاتون کے کمرے کا نقشہ ہی بدل دیا

جی ہاں، ایک ریڈٹ صارف نے ایک غیر متوقع مگر متاثر کن کامیابی کی کہانی شیئر کر کے انٹرنیٹ پر ہلچل مچا دی۔ اس نے بتایا کہ کس طرح چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے اس نے اپنی میڈیلین کولمبیا کی ناقابلِ واپسی فلائٹ اور ہوٹل بکنگ کی مد میں خرچ ہونے والے 2,500 ڈالر واپس حاصل کیے۔

ریڈٹ پر’Never take no for an answer’ کے عنوان سے کی گئی پوسٹ میں صارف نے بتایا کہ وہ ایک میڈیکل مسئلے، یعنی جنرلائزڈ اینزائٹی ڈس آرڈر (GAD) کی وجہ سے اپنا سفر منسوخ کرنے پر مجبور ہوا۔ مسئلہ یہ تھا کہ نہ تو فلائٹ اور نہ ہی ہوٹل کی طرف سے رقم واپسی کی اجازت تھی، اور اُس نے کوئی ٹریول انشورنس بھی نہیں لی تھی۔

مایوسی کے عالم میں اس نے چیٹ جی پی ٹی-4o کی مدد لی۔ اس نے اپنی بیماری کی تفصیلات، ڈاکٹر کی رپورٹ کے ساتھ چیٹ جی پی ٹی کو فراہم کیں، جس پر چیٹ جی پی ٹی نے ایک مؤثر اور مدلل خط تیار کیا۔ اس خط کو اس نے Expedia اور ہوٹل کو بھیجا۔

پوسٹ کے مطابق ابتدا میں ایکسپیڈیا اور ہوٹل نے سخت پالیسی کا حوالہ دیتے ہوئے واپسی سے انکار کر دیا، مگر چیٹ جی پی ٹی کی تیار کردہ اپیل کے بعد ہوٹل نے رقم واپس کر دی۔

ایئرلائن نے پہلے موقف اختیار کیا کہ وہ صرف موت یا لاعلاج بیماری کی صورت میں رقم واپس کرتی ہے۔ مگر جب صارف نے چیٹ جی پی ٹی کو یہ جواب دکھایا تو اس نے ایک نیا خط تیار کیا جس میں بتایا گیا کہ ذہنی صحت کے مسائل بھی سفر پر اتنا ہی اثر انداز ہو سکتے ہیں جتنا جسمانی بیماریاں۔ حیرت انگیز طور پر، صرف ایک گھنٹے کے اندر ایئرلائن نے بھی رقم واپس کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی۔

چیٹ جی پی ٹی بھی انسانوں کی طرح دباؤ اور اضطراب کا شکار ہونے لگا

صارف نے لکھا، ’اگر چیٹ جی پی ٹی نہ ہوتا تو مجھے شاید کسی قانونی ماہر کی مدد لینا پڑتی۔ اس نے مجھے 2,500 ڈالر کے نقصان سے بچا لیا۔‘

یہ کہانی سوشل میڈیا اور ریڈٹ پر وائرل ہو گئی۔ کئی صارفین نے چیٹ جی پی ٹی کو ’ذاتی وکیل‘ کے طور پر استعمال کرنے کی تعریف کی۔ ایک نے تبصرہ کیا، ’یہ واقعی زبردست ہے، اے آئی کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے استعمال کرنا مستقبل کی راہ ہے۔‘

تاہم کچھ افراد نے اس کہانی پر شکوک کا اظہار بھی کیا۔ کئی صارفین نے ثبوت مانگے کہ واقعی رقم واپس ہوئی یا نہیں۔ کچھ نے اخلاقی پہلو پر سوال اٹھایا کہ کیا ذہنی بیماری کو ایسی صورت میں پیش کرنا مناسب تھا جہاں پالیسی واضح تھی۔

ایک صارف نے تبصرہ کیا، ’ذاتی معلومات ہٹا کر ای میلز کے اسکرین شاٹس شیئر کرو تاکہ ہم بھی سیکھ سکیں اور سچائی کی تصدیق ہو سکے۔‘

چیٹ جی پی ٹی کے پراسرار رویے نے صارفین کو خوف میں مبتلا کردیا

ایک اور نے تبصرہ کیا، ’مسئلہ یہ نہیں کہ اس نے کیا کیا، بلکہ یہ سمجھنا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی جیسے ٹولز ان لوگوں کے لیے کتنے قیمتی ہو سکتے ہیں جنہیں اپنے حقوق کے لیے مؤثر طریقے سے بولنے میں دقت ہوتی ہے۔ ہاں، اگر اس میں جھوٹ شامل تھا تو یہ ضرور اخلاقی لحاظ سے قابلِ اعتراض ہے۔‘

اس واقعے نے یہ واضح کر دیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کا استعمال صرف معلومات کے لیے ہی نہیں بلکہ عام افراد کے مسائل کے حل میں بھی کارگر ہو سکتا ہے، بشرطیکہ اخلاقی حدود کو مدنظر رکھا جائے۔

More

Comments
1000 characters