لال لپ اسٹک صرف سنگھار کا سامان نہیں بلکہ صدیوں سے خواتین کی طاقت، مزاحمت اور خود اعتمادی کی علامت رہی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جب دنیا تباہی کی لپیٹ میں تھی، خواتین نے لال لپ اسٹک کو اپنے حوصلے اور جرأت کا نشان بنا لیا۔
اُس زمانے میں، جب روزمرہ کی اشیاء بھی دستیاب نہ تھیں، خواتین نے لال لپ اسٹک کو اپنا اسلحہ بنایا۔ نازیوں کے قبضے والے علاقوں میں خواتین نے لال ہونٹوں کو مظلومیت کے خلاف ایک خاموش احتجاج کے طور پر اپنایا، کیونکہ ہٹلر کو میک اپ پسند نہیں تھا۔ امریکا اور برطانیہ میں ’وِکٹری ریڈ‘ کے نام سے خصوصی لپ اسٹک تیار کی گئی تاکہ جنگی خدمات انجام دینے والی خواتین کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔
اپنی لپ اسٹک قدرتی اجزاء سے خود تیار کریں
حتیٰ کہ قید خانوں میں بھی خواتین نے اینٹیں پیس کر یا پھلوں سے رنگ حاصل کر کے لپ اسٹک بنائی، تاکہ وہ اپنی شناخت اور وقار کو زندہ رکھ سکیں۔
جنگ کے بعد، ہالی وڈ کی اداکاراؤں جیسے مارلن منرو اور الزبتھ ٹیلر نے لال لپ اسٹک کو خوبصورتی اور اعتماد کی علامت بنا دیا۔ اگرچہ کچھ دہائیوں میں اس کا استعمال کم ہوا، لیکن 80 اور 90 کی دہائی میں یہ دوبارہ خواتین کی خود اعتمادی کی علامت بن کر ابھری۔
پاکستانی خوبصورت رنگت کے لیے 5 بہترین لپ اسٹکس
آج کے دور میں بھی، چاہے انسٹاگرام ہو یا ٹک ٹاک، لال لپ اسٹک خواتین کے اس پیغام کی نمائندہ ہے کہ ہم بہادر ہیں، باوقار ہیں اور ہمیں اپنی خوبصورتی پر فخر ہے۔
روزانہ لپ اسٹک لگانے کے خطرناک سائیڈ افیکٹس،جو آپ کی نظروں سے اوجھل ہیں
اپنے لیے درست لال رنگ کا انتخاب کیسے کریں؟
ہر عورت کا چہرہ اور رنگ الگ ہوتا ہے، اس لیے لپ اسٹک کا انتخاب بھی شخصیت کے مطابق ہونا چاہیے۔ گندمی یا سانولی رنگت والی خواتین پر گرم یا مرچ رنگ کے سرخ شیڈز زیادہ جچتے ہیں۔ صاف رنگت پر روشن سرخ یا گلابی جھلک والے سرخ شیڈز خوب لگتے ہیں، اور گہرے رنگ والے بال رکھنے والی خواتین پر گہرے یا کلاسک سرخ رنگ کا لپ اسٹک شاندار تاثر دیتا ہے۔