زمین کا جانداروں کے دماغ سے تال میل بگڑنے لگا جس کے بعد انواع اور ماحول کیلئے خطرے کی گھنٹی بج گئی۔
زمین پر زندگی کی تشکیل میں موسموں کا مرکزی کردار رہا ہے۔ دنیا کی بیشتر انواع، بشمول انسان، نے اپنے حیاتیاتی معمولات کو زمین کے موسمی چکروں سے ہم آہنگ کر رکھا ہے۔
پودوں کی افزائش، جانوروں کی اربوں کی تعداد میں ہجرت، اور انسانی ثقافت کے کئی پہلو جیسے فصل کٹائی کی رسومات، جاپان میں چیری بلاسم کی تقریبات سب انہی موسمی ردھم کے زیر اثر ہیں۔
تاہم اب ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور دیگر اثرات زمین کے ان قدرتی چکروں کو بگاڑ رہے ہیں۔ نئی تحقیق میں خبردار کیا گیا ہے کہ موسمی تبدیلی کے اثرات نظام ہائے فطرت (ecosystems) پر زنجیری انداز میں مرتب ہو رہے ہیں، جن کے نتائج پہلے سمجھے جانے والے اندازوں سے کہیں زیادہ سنگین ہو سکتے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان کے مستقبل کو شدید خطرات لاحق، 75 سال بعد کس حال میں ہوگا؟
قطب شمالی کی برفانی چٹانوں سے لے کر استوائی جنگلات اور سمندر کی گہرائیوں تک، زمین کا سورج کے گرد سالانہ سفر دنیا کے ہر حصے میں واضح موسموں کو جنم دیتا ہے۔ ان موسموں کے اثرات جیسے مانسونی بارشیں، برف کا پگھلنا، یا درجہ حرارت میں کمی بیشی فطری عمل اور حیاتاتی معمولات کو تشکیل دیتے ہیں۔
لیکن اب ان فطری موسموں میں انسانی سرگرمیاں مداخلت کر رہی ہیں جیسے دریاؤں پر بند باندھنا، قدرتی بہاؤ کو اچانک اور مکمل طور پر بدل دیتا ہے۔
جنگلات کی کٹائی اور موسمیاتی تبدیلی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ گلیشیئرز اور برفانی ذخائر وقت سے پہلے پگھلنے لگے ہیں، اور اس قدرتی نظام میں بے ترتیبی آ چکی ہے۔
ایک نیا برِاعظم سمندر سے ابھر رہا ہے، دنیا پر اِس کے اثرات کیا ہوں گے؟
انسان موسمی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اپنے طرز زندگی میں رد و بدل کر سکتا ہے جیسے فصلوں کی کٹائی کے اوقات تبدیل کرنا یا روایتی آگ جلانے کے طریقے اپنانا لیکن جانور، درخت اور دیگر انواع اس قدر لچکدار نہیں ہوتیں۔
یہ عدم ہم آہنگی کئی ماحولیاتی مسائل کو جنم دے سکتی ہے جیسا کہ اگر پلانکٹن کی افزائش اور مچھلیوں کے تولیدی مراحل میں ہم آہنگی نہ ہو تو ماہی گیری متاثر ہو سکتی ہے۔ بڑے جانوروں کی موسمی ہجرت سے جڑا سیاحت کا شعبہ متاثر ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ ماحولیاتی نظام میں کاربن کے جذب جیسے عمل بھی موسموں کے تابع ہوتے ہیں۔
ہم کیا نہیں جانتے، وہ زیادہ خطرناک ہے
اگرچہ ماہرین حیاتیات صدیوں سے موسمی عمل کا مطالعہ کر رہے ہیں، مگر اس تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ہم ابھی بھی پوری طرح نہیں سمجھ سکے کہ موسمی بگاڑ ماحولیاتی نظام اور حیاتیاتی تنوع پر کس حد تک اثر انداز ہو رہا ہے۔
خطرے کی گھنٹی: ’صدی کے آخر تک 80 فیصد ہمالیائی گلیشیئرز پگھل جائیں گے‘
اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ہم غالباً موسمی تبدیلیوں کے اثرات کو کم سمجھ رہے ہیں، اور اسے نظرانداز کرنا مستقبل میں انسانی اور ماحولیاتی سطح پر سنگین نتائج کا سبب بن سکتی ہیں۔
موسموں کا زمین پر زندگی کی تال میل میں مرکزی کردار ہے، اور اگر ہم نے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو سنجیدگی سے نہ لیا تو ہم نہ صرف اپنی حیاتیاتی تنوع کو خطرے میں ڈالیں گے، بلکہ اپنی معیشت، ثقافت اور بقاء کے فطری نظام کو بھی تباہ کردیں گے۔