دنیا کے سمندروں میں 3 سے 20 ملین سال تک ایک ایسا جاندار تیرتا تھا جو آج تک کے سب سے بڑے شکاری کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس خطرناک سمندری مخلوق کا نام میگالوڈن (Otodus megalodon) تھا۔ یہ دیو ہیکل شارک 79 فٹ تک لمبی، انسانی ہاتھ جتنے بڑے دانت رکھتی تھی، اور اس کا کاٹنے کا زور ایک ہائیڈرولک پریس کے برابر ہوا کرتا تھا۔

اس سمندری شکاری کے بارے میں سائنسدانوں کا زیادہ تر علم صرف فوسل دانتوں پر مبنی ہے، کیونکہ اس کا مکمل ڈھانچہ آج تک دریافت نہیں ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میگالوڈن کا ڈھانچہ نرم کارٹیلیج سے بنا ہوتا تھا جو وقت کے ساتھ محفوظ نہیں رہتا۔

اب ایک نئی عالمی تحقیق نے اس خیال کو چیلنج کیا ہے کہ میگالوڈن صرف بڑی سمندری مخلوقات جیسے وہیلز پر انحصار کرتا تھا۔

تحقیق کے مطابق یہ شارک اپنی روزانہ کی ایک لاکھ کیلوریز کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہر طرح کے دستیاب شکار کو نشانہ بناتی تھی۔

شارک کے ساتھ تصویر بنوانے کی کوشش میں خاتون سیاح دونوں ہاتھوں سے محروم ہوگئی

تحقیق کے مرکزی مصنف ڈاکٹر جیریمی میک کارمیک، جو جرمنی کی گوئٹے یونیورسٹی کے ماہر ارضیات ہیں کا کہنا ہے اگر بڑی خوراک دستیاب ہوتی تو میگالوڑن یقیناً اس پر جھپٹتا، لیکن جب ایسی خوراک دستیاب نہ ہوتی تو یہ چھوٹے جانوروں سے بھی اپنی غذائی ضروریات پوری کر لیتا۔“

جیریمی مک کارمیک کی سربراہی میں سائنسدانوں نے 18 ملین سال پرانے میگالوڈن کے دانتوں میں موجود زنک کے مختلف آئسوٹوپس کا تجزیہ کیا۔ چونکہ زنک صرف خوراک کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے، اس لیے اس کی مقدار اور اقسام خوراک کی نوعیت کا پتا دے سکتی ہیں۔

تحقیق میں دریافت ہوا کہ جس جانور کی خوراک زیادہ گوشت یا مچھلی پر مشتمل ہو، اس میں زنک-66 کی مقدار کم اور زنک-64 کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ اسی بنیاد پر میگالوڈن کے دانتوں کا تجزیہ کرکے اس کی خوراک کی نوعیت سمجھی گئی۔

شارک بھی چرس کا نشہ کرنے لگی، نئی تحقیق میں بڑا انکشاف

تحقیق کے نتائج سے معلوم میگالوڈن بلاشبہ فوڈ چین کے سب سے اونچے درجے پر تھا، تاہم اس کے زنک آئسوٹوپس کا تناسب نیچے درجے کے جانوروں سے بہت زیادہ مختلف نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ صرف بڑی مخلوقات جیسے وہیلز پر ہی نہیں، بلکہ مختلف سطحوں پر موجود مخلوقات پر بھی شکار کرتا تھا۔

جیریمی مک کارمیک نے سی این این کو بتای کہ یہ مخصوص شکار پر انحصار نہیں کرتا تھا، بلکہ خوراکی جال میں موجود کئی اقسام کے جانوروں کو نشانہ بناتا تھا۔ یہ اپنی نوعیت کا خطرناک ترین جاندار تھا، جس پر شاید ہی کوئی دوسرا جانور حملہ کرتا ہوا، لیکن یہ خود تقریباً ہر چیز کو شکار بنا سکتا تھا جو اس کے آس پاس موجود ہوتا۔

مختلف علاقوں میں مختلف خوراکی عادات

تحقیق نے یہ بھی واضح کیا کہ مختلف علاقوں میں رہنے والی میگالوڈن کی خوراک میں کچھ فرق تھا، جو شاید مختلف شکار کی دستیابی کی وجہ سے تھا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شارک ماحول کے مطابق خود کو ڈھال سکتی تھی۔

More

Comments
1000 characters