کیا آپ نے کبھی اپنے آپ کو کسی مشکل صورتحال میں محسوس کیا ہے اور پھر دوسروں کو الزام دینے کی کوشش کی ہے؟ چاہے وہ دوست ہو، کام کی جگہ پر باس ہو، یا ذاتی حالات۔ اکثر ہمیں کسی نہ کسی کو الزام دے کر خود کو پرسکون کرنے کا خیال آتا ہے۔
لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ شکار ذہنیت، جو عموماً دوسروں کو قصوروار ٹھہرانے کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے، آپ کی زندگی پر منفی اثرات ڈال سکتی ہے؟
جہاز، ٹرین، کار اور بس کی سب سے محفوظ سیٹس کونسی؟ سفر سے پہلے ضرور جان لیں
شکار ذہنیت وہ ذہنی حالت ہے جس میں انسان ہمیشہ اپنے مسائل یا ناکامیوں کے لیے دوسروں یا حالات کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے اور اپنے آپ کو بے بس اور مظلوم سمجھتا ہے۔
اگرچہ یہ سوچ بظاہر ایک طریقہ نظر آتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو بہتر محسوس کر سکیں، لیکن حقیقت میں یہ سوچ ہمارے اندر منفی اثرات چھوڑتی ہے اور ہمیں زندگی میں آگے بڑھنے سے روک دیتی ہے۔
میٹا کی اے آئی ایپ پر پرائیویسی کا بحران: صارفین کی نجی گفتگو عوامی طور پر لیک ہونے لگی
ماہرین کا کہنا ہے کہ شکار ذہنیت انسان کی ذہنی صحت، ذاتی زندگی اور پیشہ ورانہ مقاصد پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ یہ انسان کو خود پر یقین کرنے سے روکتی ہے اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔
ماہر نفسیات کے مطابق اس ذہنیت کے حامل افراد اپنے مسائل کے لیے ہمیشہ باہر کی قوتوں کو الزام دیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کا کیریئر اور ذاتی زندگی رک جاتی ہے۔
دولت حاصل کرنے کا ’سیکرٹ‘ کیا ہے؟ وہ خفیہ عادات جو کامیاب لوگ اپناتے ہیں؟
شکار ذہنیت کا شکار افراد دوسروں سے مسلسل مدد مانگتے ہیں، مگر وہ کبھی اپنی صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے خود کوئی قدم نہیں اٹھاتے۔ ان کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا ایک عام بات بن جاتا ہے، اور وہ خود کو بدقسمت یا ظالمانہ سلوک کا شکار سمجھتے ہیں۔
پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر اس ذہنیت سے نکلنے کا طریقہ کیا ہے؟ ماہرین نفسیات کے مطابق، اس ذہنیت سے باہر نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے چیلنجز کو مواقع کے طور پر دیکھیں اور ہر ناکامی سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش کریں۔
ہمیں اپنی روزمرہ زندگی میں چھوٹے چھوٹے فیصلے کرنا ہوں گے تاکہ ہم اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں اور خود کو ایک فعال شخص کے طور پر محسوس کر سکیں۔
اس ضمن میں وہ شکار ذہنیت سے نکلنے کے لیے چند مفید طریقے تجویز کرتے ہیں۔
چیلنجز کو مواقع کے طور پر دیکھیں
مشکلات کو ذاتی ناکامی کے طور پر نہ دیکھیں بلکہ سوال کریں، ”اس سے میں کیا سیکھ سکتا ہوں؟“ ہر چیلنج کے بعد ایک مختصر سبق لکھنا، الزام سے بڑھ کر ترقی کی جانب توجہ مرکوز کرتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ آپ کی ذہنیت کو فعال بناتا ہے۔
چھوٹے چھوٹے فیصلے کرنا سیکھیں
شکار ذہنیت احساسِ بے بسی پر پلتی ہے۔ روزانہ کی زندگی میں چھوٹے فیصلے کریں، جیسے کہ اپنی صبح کی روٹین منتخب کرنا یا کام کے لیے ایک مختصر ہدف مقرر کرنا۔ ان ”چھوٹی کامیابیوں“ کا جشن منانا آپ کو اس بات کا یقین دلاتا ہے کہ آپ اپنے حالات پر اثر ڈال سکتے ہیں۔
”مراقبہ“ کی حیثیت اختیار کریں
جب آپ کے اندر منفی خیالات ابھریں، تو خود کو ایک دوست کی طرح سوچنے کی کوشش کریں جو اسی صورتحال سے گزر رہا ہو۔ اس طرح ذہنی فاصلے کی بدولت آپ کی جذباتی شدت کم ہوتی ہے اور آپ حل کی طرف بڑھنے کے مواقع کو بہتر انداز میں دیکھ پاتے ہیں۔
شکرگزاری کی عادت ڈالیں
روزانہ تین چیزیں لکھیں جن کے لیے آپ شکر گزار ہیں، چاہے وہ کتنی ہی چھوٹی ہوں۔ اس عادت کو اپنانے سے آپ کا دماغ انصاف اور بے انصافی کی بجائے مثبت پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرتا ہے، جو کہ آپ کو مضبوط اور متوازن بناتا ہے۔
تعمیری رول پلے میں مشغول ہوں
اپنے قریبی دوست یا کوچ کے ساتھ مل کر پچھلی مشکلات پر ردعمل دینے کی مشق کریں۔ اپنے اندر کی مثبت آواز کو بلند کرکے آپ اپنے اندرونی خیالات کو دوبارہ ترتیب دے سکتے ہیں، جس سے خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔
ذاتی ترقی کا نقشہ تیار کریں
ایک سادہ ”ترقی چارٹ“ بنائیں جس میں آپ اپنی زندگی میں کی گئی تبدیلیوں کو ٹریک کریں۔ یہ آپ کو شکار ذہنیت سے باہر نکالنے میں مدد دیتا ہے اور آپ کی ترقی کو ایک تسلسل کی صورت میں دیکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اپنے ارد گرد ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو آپ کو سمجھیں اور آپ کو اوپر اٹھانے کی کوشش کریں۔ جو آپ کی اصل مدد کرتے ہیں، وہ اس سفر کو زیادہ محفوظ اور مستقل بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔