جنوبی کوریا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق نے طویل اوقات کار کے انسانی دماغ پر پڑنے والے اثرات سے متعلق ہوشربا انکشافات کیے ہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جو افراد ہفتے میں 52 گھنٹے یا اس سے زائد وقت کام کرتے ہیں، ان کے دماغ کے وہ حصے متاثر ہو سکتے ہیں جو جذباتی توازن اور فیصلہ سازی جیسے اہم افعال کے ذمے دار ہوتے ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ مسلسل کام اور ذہنی دباؤ دماغی ساخت کو بھی تبدیل کر سکتا ہے۔

جنوبی کوریا میں ایک تحقیق کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ طویل وقت تک کام کرنا ملازمین کی ذہنی اور جذباتی صحت پر کس حد تک اثرانداز ہوتا ہے۔ یہ تحقیق ایک معروف جریدے میں شائع بھی ہوئی ہے۔

اس تحقیق میں 110 ہیلتھ کیئر ورکرز کو شامل کیا گیا، جنہیں دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا،

  • اوورورکڈ (ہفتے میں 52 گھنٹے یا اس سے زیادہ کام کرنے والے)

  • نان اوورورکڈ (نسبتاً کم گھنٹے کام کرنے والے)

اس تحقیق کے نتائج نے چونکا دینے والا انکشاف کیا کہ زیادہ گھنٹے کام کرنے والے افراد کے دماغ میں ’ایگزیکٹو فنکشن‘ اور ’ایموشنل ریگولیشن‘ سے متعلق حصوں میں نمایاں تبدیلیاں دیکھی گئیں۔

تحقیق کے شریک مصنف ڈاکٹر وانہیونگ لی، جو سیول کی چونگ آنگ یونیورسٹی کالج آف میڈیسن میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، نے بتایا کہ یہ پہلی بار ہے کہ طویل وقت تک کام کرنے اور دماغی ساخت کے درمیان تعلق کو اس طرح تفصیل سے جانچا گیا ہے۔

انہوں نے کہا، ’ہمیں ابتدا میں اس نوعیت کے نتائج کی توقع نہیں تھی، لیکن جو کچھ سامنے آیا وہ نہایت حیران کن تھا۔‘

دولت حاصل کرنے کا ’سیکرٹ‘ کیا ہے؟ وہ خفیہ عادات جو کامیاب لوگ اپناتے ہیں؟

تحقیق میں انکشاف ہوا کہ دماغ کے وہ حصے جو یادداشت، فیصلہ سازی، توجہ اور جذباتی توازن جیسے افعال سے جڑے ہیں، ان میں تبدیلی دیکھی گئی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دماغ مسلسل دباؤ کو سنبھالنے کے لیے خود کو تبدیل کرتا ہے۔

تاہم محققین نے خبردار کیا کہ اگر یہ صورتِ حال طویل عرصے تک جاری رہی تو یہ دماغی سوجن، نیورل اسٹریس یا ساختی بگاڑ کا باعث بھی بن سکتی ہے۔

ڈاکٹر لی نے کہا، ’یہ صرف نفسیاتی مسئلہ نہیں، بلکہ مسلسل دباؤ سے دماغی ساخت میں جسمانی تبدیلیاں بھی آ سکتی ہیں۔ اس لیے کام اور آرام کے درمیان توازن برقرار رکھنا ضروری ہے۔‘ انہوں نے اداروں پر بھی زور دیا کہ وہ صحت مند کام کا ماحول فراہم کریں تاکہ ملازمین کی ذہنی صحت محفوظ رہے۔

ایک اورماہر نیوروسرجن نے اس تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ طویل ذہنی دباؤ اور نیند کی کمی جیسے عوامل دماغ کی ساخت میں تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں، جس کا سائنسی ثبوت اب سامنے آ رہا ہے۔

امریکن کیریئر کوچ اور ذہنی صحت کے ماہر کائل ایلیٹ نے مشورہ دیا کہ ملازمین کو اپنی ذہنی صحت کا خاص خیال رکھنا چاہیے اور جب ضروری ہو تو آرام لینے سے گریز نہ کریں۔ انہوں نے کہا، ’ذہنی سکون نہ صرف کام کی صلاحیت بہتر بناتا ہے، بلکہ جسمانی صحت اور زندگی کی طوالت پر بھی اثر ڈالتا ہے۔‘

جین زی میں نیا نفسیاتی مسئلہ، نوجوان روبرو گفتگو سے کیوں کترا رہے ہیں؟

تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بات پر پہلے ہی سائنسی تحقیقات سے ثابت ہے کہ دن کے درمیانی حصے میں مختصر نیند (نیپ) یا جسے ہم قیلولہ بھی کہتے ہیں یعنی کچھ دیرآرام ذہنی صحت اور کارکردگی کے لیے نہایت مفید ہے۔ دوپہر میں 15 سے 25 منٹ کا آرام نہ صرف ذہنی تھکن کو کم کرتا ہے بلکہ توجہ، یادداشت اور فیصلہ سازی کی صلاحیت کو بھی بہتر بناتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، یہ مختصر وقفہ دماغ کو تازہ دم کرتا ہے اور دن کے باقی حصے میں کام کرنے کی استعداد بڑھا دیتا ہے۔

مسلسل اور طویل وقت تک کام کرنا صرف تھکن کا باعث نہیں بنتا بلکہ دماغی ساخت کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ اس لیے ملازمین کو چاہیے کہ وہ وقت پر آرام کریں، اداروں کو چاہیے کہ وہ لچکدار پالیسیاں اپنائیں اور مجموعی طور پر ’اوورورک سوسائٹی‘ بننے سے خود کو بچائے۔

More

Comments
1000 characters