قدرت میں ہر چیز کا ایک نظم ہوتا ہے اور یہ نظم کبھی کبھار اتنا دلچسپ ہوتا ہے کہ سائنسدان بھی حیران رہ جاتے ہیں۔ اگر آپ نے کبھی شارک کو دیکھا ہے، تو آپ نے ان کے مختلف سائز اور شکلوں میں تنوع کو ضرور محسوس کیا ہوگا۔ کچھ شارکس اتنی چھوٹی ہوتی ہیں کہ ایک ہاتھ میں آ سکتی ہیں، جب کہ کچھ اتنی بڑی ہوتی ہیں کہ ایک پوری عمارت ان کے اندر سماجائے۔ مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ شارکس کی جسمانی ساخت میں چھپی ایک صدیوں پرانی ریاضیاتی حقیقت ہے جو ان کی بائیولوجی اور نشوونما کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے؟
یہ ریاضیاتی اصول ’دو تہائی پیمائش کا قانون‘ کہلاتا ہے، اور حالیہ تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ چاہے شارک چھوٹی ہو یا بڑی، وہ اس قانون کے مطابق ہی بڑھتی ہیں۔ تمام سائز کی شارک 400 سال پرانے ریاضی کے اصول پر عمل کرتی ہیں جو بتاتی ہے کہ ارتقاء کیسے کام کرتا ہے۔
دو تہائی پیمائش کے قانون کا کیا مطلب ہے؟
یہ قانون سادہ جغرافیائی اصول پر مبنی ہے۔ اس کے مطابق،
سطح کا رقبہ، لمبائی کے مربع کے مطابق بڑھتا ہے۔ حجم، لمبائی کے مکعب (cube) کے مطابق بڑھتا ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی اور قدیم شارک اپنا پیٹ بھرنے کیلئے کیا کھاتی تھی؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی جانور بڑا ہوتا ہے، تو اس کی سطح (جیسے جلد یا جسم کی بیرونی سطح) اس کے حجم کے مقابلے میں اتنی تیزی سے نہیں بڑھتی۔ یہ فرق بہت اہم ہوتا ہے کیونکہ،
’سطح کا رقبہ‘ اس بات کا تعین کرتا ہے کہ جانور کتنا آکسیجن حاصل کر سکتا ہے، حرارت کتنی تیزی سے خارج کرتا ہے، اور وہ کتنی خوراک جذب کرتا ہے۔ جبکہ ’حجم‘ یہ طے کرتا ہے کہ جسم کو زندہ رہنے کے لیے کتنی توانائی اور آکسیجن کی ضرورت ہے۔
لہذا، جب جانور بڑا ہوتا ہے، تو اس کی جسمانی ساخت میں ایسا توازن آنا ضروری ہوتا ہے جو ان دونوں چیزوں کو موزوں طریقے سے ایک ساتھ لائے۔
گالف کے میدان میں آسمان سے ’شارک‘ ٹپک پڑی، کھلاڑی حیران
یہ سوال کہ آیا شارکس بھی اس اصول پر عمل کرتی ہیں، حالیہ تحقیق میں دلچسپی کا مرکز بنا۔ اور شارکس اس کے لیے بہترین جانور ہیں کیونکہ ان کی نوعیں مختلف سائز اور شکلوں میں پائی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر،
کچھ شارکس چھوٹی ہوتی ہیں، جیسے ’لینٹرن شارک‘ جو رات کے وقت چمکتی ہیں۔
دوسری طرف، ’وہیل شارک‘ دنیا کی سب سے بڑی مچھلی ہے، جو 20 میٹر تک بڑھ سکتی ہے۔
سب شارکس کو ایک ہی طرح کے بایولوجیکل چیلنج کا سامنا ہوتا ہے۔ ’آکسیجن کا حصول، حرارت کا توازن، اور توانائی کی ضرورت۔‘ تو سائنسدانوں نے ان مختلف سائز کی شارکس کا مطالعہ کیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کیا ان کے جسم کا سائز بڑھنے پر وہ دو تہائی پیمائش کے قانون کو اپناتی ہیں۔
تحقیق اوراس کے نتائج
تحقیقی ٹیم نے 54 مختلف قسم کی شارکس کے جسمانی ماڈلز بنائے۔ ان ماڈلز کو تیار کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجیز جیسے ’سی ٹی اسکین‘ اور ’فوٹو گرام میٹری‘ کا استعمال کیا گیا، جن کے ذریعے ان شارکس کے جسم کے 3D ماڈلز بنائے گئے۔
یہ ماڈلز شارکس کے ’سطح کے رقبے‘ اور ’حجم‘ کی پیمائش کرنے کے لیے استعمال کیے گئے، اور پھر ان پیمائشوں کو دو تہائی پیمائش کے قانون کے مطابق جانچا گیا۔
شارک کے ساتھ تصویر بنوانے کی کوشش میں خاتون سیاح دونوں ہاتھوں سے محروم ہوگئی
اس تحقیق کی اہمیت
یہ صرف شارکس کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ اس تحقیق کا فائدہ پورے حیاتیاتی اور ماحولیاتی ماڈلز پر پڑے گا۔ اگر ہم اس قانون کو جانچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں تو ہم اس سے مزید بڑی مچھلیوں، مثلا ’وہیلز‘ اور ’ممالیہ جانوروں‘ کے جسمانی عمل کو سمجھ سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ، چونکہ دنیا میں ماحولیاتی تبدیلیاں تیز ہو رہی ہیں اور حیاتیاتی تنوع کم ہو رہا ہے، اس تحقیق کا مقصد یہ بھی ہے کہ ہم ان جانوروں کو زیادہ بہتر طریقے سے تحفظ فراہم کر سکیں۔