انسانی ڈی این اے کو مکمل طور پر مصنوعی طریقے سے بنانے کے سائنسدانوں کے منصوبے نے بڑا تنازعہ کھڑا کر دیا۔
دنیا کے سب سے بڑے طبی خیراتی ادارے ویلکم ٹرسٹ (Wellcome Trust) نے انسانی ڈی این اے کو شروع سے بنانے کے متنازعہ منصوبے کے آغاز کے لیے 10 ملین پاؤنڈ (تقریباً 117 کروڑ روپے) کی مالی امداد فراہم کی ہے۔ اس منصوبے میں آکسفورڈ، کیمبرج اور امپیریل کالج سمیت برطانیہ کی ممتاز جامعات کے سائنسدان شامل ہیں۔
ڈی این اے کو انسانی زندگی کی بنیادی اکائی سمجھا جاتا ہے، جو نیوکلیوٹائیڈز (nucleotides) نامی اکائیوں سے بنتا ہے اور یہی وہ معلومات رکھتا ہے جو جسمانی طور پر ہمیں وہ بناتی ہے جو ہم ہیں۔
سنتھیٹک ہیومن جینوم پروجیکٹ (Synthetic Human Genome Project) کے سائنسدان اب ثبوت کے طور پر انسانی ڈی این اے کے تقریباً دو فیصد حصے پر مشتمل ایک مکمل مصنوعی کروموسوم بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حتمی ہدف یہ ہے کہ ایک دن مکمل انسانی جینوم کو ابتدا سے تیار کیا جا سکے۔
سائنس کی عجیب کامیابی، دو ’نر‘ چوہوں کے ڈی این اے سے بچے پیدا کرنے لائق چوہیا بنا لی
کیمبرج کے ایم آر سی لیبارٹری آف مالیکیولر بایولوجی سے وابستہ سائنسدان ڈاکٹر جولیئن سیل نے بی بی سی کو بتایا کہ ہم ایسی تھیراپیز پر کام کر رہے ہیں جو لوگوں کی زندگیوں کو عمر رسیدگی کے ساتھ بہتر بنائیں، تاکہ بڑھتی عمر میں بیماریاں کم ہوں اور صحت مند زندگی کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم اس طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے بیماریوں سے محفوظ خلیے تیار کرنا چاہتے ہیں، جنہیں جگر، دل یا حتیٰ کہ مدافعتی نظام جیسے متاثرہ اعضا میں دوبارہ آبادکاری کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
’گٹ فیلنگ‘ کیا ہے؟ ایک اندرونی بصیرت یا سائنسی حقیقت؟ حیران کن معلومات
ویلکم سانگر انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر پروفیسر میتھیو ہرلز کے مطابق یہ سمجھنا کہ جینز اور ڈی این اے ہمارے جسم کو کیسے کنٹرول کرتے ہیں، ہمیں یہ جاننے میں مدد دے سکتا ہے کہ یہ کب اور کیسے بگڑتے ہیں، جس سے ہم بہتر علاج دریافت کر سکتے ہیں۔
جگر کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے 5 مفید مشروبات
پروفیسر ہرلز نے مزید کہا کہ ڈی این اے کو شروع سے تیار کرنا ہمیں یہ جانچنے کی اجازت دیتا ہے کہ ڈی این اے دراصل کیسے کام کرتا ہے اور ہم نئی نظریات کو آزما سکتے ہیں، کیونکہ اس وقت ہم صرف موجودہ حیاتیاتی نظاموں میں موجود ڈی این اے میں تبدیلی کر کے ہی ایسا کر سکتے ہیں۔