ایئربڈز اور ایئرفونز اب ہماری روزمرہ زندگی، خاص طور پر کام کے دوران، کا ایک لازمی حصہ بن چکے ہیں۔ انہیں استعمال کیے بغیر دن گزارنا مشکل محسوس ہوتا ہے۔ لیکن ان کا گھنٹوں تک مسلسل استعمال، جب یہ کانوں میں بالکل فٹ ہو کر لگے رہتے ہیں، خاموشی سے کانوں کے انفیکشن کا سبب بن سکتا ہے. ایک ایسا خطرہ جسے ہم اکثر نظرانداز کر دیتے ہیں۔
دفتر میں قدم رکھتے ہی پہلا کام کیا ہوتا ہے؟ حاضری لگانا، لیپ ٹاپ نکالنا… اور ایئرفون کانوں میں ڈالنا۔ اگر آپ بھی اُن لوگوں میں شامل ہیں جو کام کے دوران مسلسل ایئر بڈز یا ہیڈ فون استعمال کرتے ہیں، تو آپ اکیلے نہیں ہیں۔ یہ ننھے آڈیو ساتھی، جنہیں کبھی محض موسیقی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، اب توجہ مرکوز کرنے، شور سے بچنےاور کام کی رفتار بڑھانے کے لیے تقریباً ناگزیر بن چکے ہیں۔
ایک عام عادت جو دماغی صحت کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے
ہیڈفون، ایئر پلگ، ایئرفون یا پوڈ آپ چاہے انہیں جو نام دیں، یہ اب ہماری روزمرہ زندگی کا ایک ضروری حصہ بن چکے ہیں۔ آج کے دفاتر میں یہ منظر عام ہے کہ لوگ چھوٹے سفید (یا میرے جیسے کچھ لوگ سرخ) ایئربڈز کانوں میں لگائے، گہری توجہ کے ساتھ لیپ ٹاپ پر ٹائپ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ان آلات کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ اردگرد کے شور سے نجات دلاتے ہیں اور ذہن کو اپنے کام پر توجہ مرکوز رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔۔ اسی لیے، شوروغل سے بھرے ماحول جیسا کہ دفاتر میں ان کے بغیر کام کرنا مشکل محسوس ہوتا ہے۔
پیراگلائیڈر کی ہائی وولٹیج تاروں سے ٹکر، خوفناک ویڈیو وائرل
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایئرفونز کو طویل وقت تک استعمال کرنا واقعی محفوظ ہے؟ کیا یہ پیداوری صلاحیت میں اضافہ کرتے ہیں یا درپردہ نقصان کا باعث بن رہے ہیں؟ کیا موسیقی واقعی کام کرنے میں مدد دیتی ہے یا یہ صرف ایک خوش کن فریب ہے؟
ایئرفونز کا طویل استعمال نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ یہ بات اب عام علم بن چکی ہے، لیکن اس کے باوجود ہم میں سے بیشتر لوگ اس کا روزانہ سامنا کرتے ہیں اور نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس کے اثرات صرف سماعت تک محدود نہیں رہتے، بلکہ اس کے کئی دیگر ضمنی اثرات بھی ہو سکتے ہیں جن پر کم ہی بات کی جاتی ہے۔
بعض اوقات ایئرفونز یا ایئر پوڈز کا استعمال توجہ مرکوز کرنے یا پرسکون ہونے میں مدد دیتا ہے، مگر گھنٹوں تک انہیں کانوں میں لگائے رکھنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر جب یہ آلات کان کی نالی میں صحیح طریقے سے فٹ نہ ہوں تو یہ جلن، خراش یا یہاں تک کہ معمولی زخم کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ، مسلسل استعمال سے کانوں میں موم جمع ہونے لگتا ہے۔ ہمارے کان عام طور پر خود کو صاف کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جب ہم بات کرتے یا چباتے ہیں تو کان کے اندر موجود موم خودبخود باہر آجاتا ہے۔ لیکن بار بار ایئرفونز لگانے سے موم اندر کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے اور نالی کی سطح پر رگڑ پیدا ہوتی ہے، جس سے خشکی، خارش اور انفیکشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ڈاکٹرزکہتے ہیں کہ کہ اس کا نتیجہ وقتی سماعت میں کمی کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔ مزید یہ کہ جب دماغ مسلسل بیرونی آوازوں کو ایئرفونز کے ذریعے دباتا ہے، تو قدرتی آوازوں سے اس کی ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ دماغ حقیقی دنیا کے معمولی شور پر بھی زیادہ حساس ہو جاتا ہے اور افراد عام ماحولیاتی آوازوں سے بھی چڑچڑا پن محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ایئرفونز کے استعمال میں توازن رکھیں اور اپنی سماعت کی صحت کو نظر انداز نہ کریں۔
لیکن اس کاحل کیا ہے؟ کیاایئرفونز کو خیرباد کہہ دیا جائے؟
نہیں، بالکل نہیں۔ مقصد یہ نہیں کہ ہم ایئر بڈز کو ترک کر دیں، بلکہ ان کے استعمال میں اعتدال پیدا کریں۔
محفوظ استعمال کے لیے ماہرین کی تجاویز
60/60 قاعدہ: 60 فیصد سے کم والیوم پر، زیادہ سے زیادہ 60 منٹ مسلسل سننا۔
ہر 30-60 منٹ بعد 5-10 منٹ کا وقفہ دیں تاکہ کان ”سانس“ لے سکیں۔
ایئرفونز صاف رکھیں اور انہیں کان کے بہت اندرتک نہ ڈالیں۔
کام کے دوران کچھ وقت بغیر آواز کے گزارنے کی مشق کریں۔
والیوم کم رکھیں، جتنا ممکن ہو۔
بچوں یا نوعمروں کی خاص طور پر نگرانی کریں، کیونکہ ان کے کان حساس ہوتے ہیں۔
ایئر بڈز، بلاشبہ، ہماری روزمرہ زندگی کا ایک ”ذہین“ جز بن چکے ہیں جو توجہ بڑھاتے ہیں، شور کم کرتے ہیں اور کسی حد تک ذہنی سکون بھی دیتے ہیں۔ لیکن انہی چھوٹے آلات سے جڑی عادت اگر بغیر سوچے سمجھے اپنائی جائے، تو نہ صرف ہماری سماعت بلکہ دماغی لچک بھی متاثر ہو سکتی ہے۔
پس، ایئرفونز کا استعمال کریں لیکن ہوش سے، احتیاط سے اور وقفے وقفے سے۔ کیونکہ خاموشی بھی، بعض اوقات، ایک بہت خوبصورت دھن ہوتی ہے۔