ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق انگلینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ میں ٹائیفائیڈ اور پیراٹائیفائیڈ بخار کے کیسز میں خطرناک حد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ 2024 میں ان کیسز کی تعداد 702 تک پہنچ گئی، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 8 فیصد زیادہ ہے۔ یہ اب تک کی سب سے بلند سالانہ شرح ہے۔

یہ بیماریاں پھیلتی کیسے ہیں؟

ٹائیفائیڈ اور پیراٹائیفائیڈ بخار ’سیلمونیلا‘ بیکٹیریا کے ذریعے پھیلتی ہیں، جو اکثر آلودہ پانی یا خوراک کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے۔ ان بیماریوں کی زیادہ تر علامات بیرون ملک سفر کرنے والے افراد میں دیکھی جاتی ہیں، خصوصاً جنوبی ایشیا اور افریقہ جیسے خطوں سے واپس آنے والوں میں۔

برطانیہ کی ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان جیسے ممالک میں ٹائیفائیڈ کی وہ اقسام جن پر عام دواؤں کا اثر نہیں ہوتا، تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ ان اقسام کو ’ایکسٹینسوِلی ڈرگ ریزسٹنٹ‘ (XDR) ٹائیفائیڈ کہا جاتا ہے، جو عام اینٹی بائیوٹکس سے بھی قابو میں نہیں آتی۔

بچے کا پنجوں پر چلنا کس خطرناک ذہنی بیماری کی علامت ہے؟

بی بی سی کی ایک رپورٹ میں ایک اندازے کے مطابق ہر سال ٹائیفائیڈ اور پیراٹائیفائیڈ اے بخار کے 13 ملین کیسز ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں 133,000 اموات ہوتی ہیں۔ یہ حالت بنیادی طور پر ایشیا اور افریقہ میں اسکول جانے والے بچوں کو متاثر کرتی ہے۔

سائنسدانوں کی تحقیق اور عالمی خطرہ

2022 میں شائع ہونے والی ایک بین الاقوامی تحقیق میں 3,489 بیکٹیریا کے نمونوں کا جائزہ لیا گیا جو 2014 سے 2019 کے درمیان نیپال، بنگلہ دیش، پاکستان اور بھارت سے حاصل کیے گئے۔ اس تحقیق نے ظاہر کیا کہ نئی دواؤں کے خلاف مزاحمت رکھنے والی اقسام تیزی سے عام ہو رہی ہیں، جس سے علاج کی راہیں مزید محدود ہوتی جا رہی ہیں۔

تحقیق میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ تقریباً 200 بار یہ مزاحم اقسام مختلف ممالک میں منتقل ہو چکی ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا، مشرقی اور جنوبی افریقہ، اور حتیٰ کہ ترقی یافتہ ممالک جیسے برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا میں بھی یہ سپر بگز سامنے آ چکے ہیں۔

مسلسل بھوک لگنے کی انوکھی بیماری، 9 سالہ بچہ دن میں کتنا کھانا کھا جاتا ہے؟

اس تحقیق کے مرکزی محقق، ڈاکٹر جیسن اینڈریوز (اسٹینفورڈ یونیورسٹی، امریکہ) کا کہنا ہے کہ مزاحم اقسام کی تیز رفتار افزائش اور پھیلاؤ نے دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹائیفائیڈ کنٹرول کو صرف مقامی سطح کا نہیں بلکہ عالمی صحت کا مسئلہ سمجھ کر اس کے تدارک کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔

محققین نے تسلیم کیا کہ افریقہ اور اوشیانا جیسے خطوں سے حاصل ہونے والے جینیاتی نمونے انتہائی محدود ہیں، حالانکہ ان علاقوں میں بھی ٹائیفائیڈ عام ہے۔ مکمل تصویر حاصل کرنے کے لیے جینیاتی نگرانی کو وسعت دینا ضروری ہے تاکہ بیکٹیریا کی مزاحم اقسام کے پھیلاؤ اور تغیرات کا بہتر اندازہ لگایا جا سکے۔

بچوں کی خاموشی یا بدسلوکی کی وجہ یہ بیماری بھی ہوسکتی ہے

آگاہی، ویکسینیشن اور صفائی: بچاؤ کی کنجیاں

ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ علاج سے زیادہ اہم احتیاط ہے۔ صاف پانی، بہتر صفائی، محفوظ خوراک، اور ٹائیفائیڈ ویکسینیشن جیسے اقدامات انتہائی ضروری ہیں، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں یہ بیماری عام ہے۔

More

Comments
1000 characters