آرٹیفیشل انٹیلیجنس نے گزشتہ چند برسوں میں ہماری زندگی کے کئی پہلوؤں کو متاثر کیا ہے۔ تعلیم، تحریر، کاروبار اور تخلیق کے شعبے تو پہلے ہی ’اے آئی‘ کی طاقت سے بدل رہے تھے، مگر اب ایک نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ چیٹ جی پی ٹی ہماری بول چال کے انداز پر بھی اثر ڈال رہا ہے۔ یعنی ہم نہ صرف اس ٹیکنالوجی سے سیکھ رہے ہیں بلکہ اسے لاشعوری طور پر اپنی زبان کا حصہ بھی بنا رہے ہیں۔

جرمنی کے ’میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ برائے انسانی ترقی‘ سے وابستہ محقق اور ان کی ٹیم نے یہ بات محسوس کی کہ چیٹ جی پی ٹی سے بار بار رابطہ رکھنے والے افراد کچھ خاص قسم کے الفاظ زیادہ استعمال کرنے لگتے ہیں۔ جو عمومی بول چال میں کم استعمال ہوتے تھے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ان الفاظ کی مقبولیت یوٹیوب ویڈیوز اور پوڈکاسٹس میں 2022 کے بعد سے تیزی سے بڑھی ہے۔

چیٹ جی پی ٹی کو شکریہ کہنے سے کروڑوں کا نقصان

محققین نے لاکھوں گھنٹوں پر مبنی ویڈیوز اور آڈیو گفتگو کا تجزیہ کیا اور پایا کہ چیٹ جی پی ٹی کے اثر سے صرف تحریری زبان نہیں بلکہ غیر رسمی گفتگو بھی بدلنے لگی ہے۔ یہ تبدیلی صرف رٹے رٹائے اسکرپٹس میں نہیں بلکہ عام، بے ساختہ بات چیت میں بھی دیکھی گئی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اے آئی صرف مشینی سسٹم نہیں رہا، بلکہ اس کی زبان ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ انسان فطری طور پر دوسروں کی نقالی کرتا ہے، خاص طور پر ان کی جنہیں وہ باعلم یا بااختیار سمجھتا ہے۔ چونکہ چیٹ جی پی ٹی جیسے ماڈلز کو اب کئی افراد علمی و ثقافتی حوالہ ماننے لگے ہیں، اس لیے ان کی زبان ہماری گفتگو پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم خود بھی اس ’اے آئی لہجے‘ میں بولنے لگے ہیں۔

چیٹ جی پی ٹی سمیت اوپن اے آئی کے تمام پلیٹ فارمز دنیا بھر میں بندش، وجہ کیا ہے؟

ظاہر ہے کہ یہ تبدیلی مکمل طور پر نقصان دہ نہیں۔ کئی صورتوں میں اے آئی کی زبان تحریری وضاحت، معیار اور اثر انگیزی میں بہتری لا سکتی ہے۔ خاص طور پر ان افراد کے لیے جن کی مادری زبان انگریزی نہیں ہے، چیٹ جی پی ٹی جیسے ٹولز ان کے اظہار کو زیادہ بہتر بنا سکتے ہیں۔

تاہم، اس کے ساتھ خطرات بھی وابستہ ہیں۔ زبان صرف اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ ہماری ثقافت، شناخت اور جذبات کا عکس بھی ہوتی ہے۔ اگر سب کی گفتگو ایک جیسے الفاظ اور جملوں سے بھر جائے تو ذاتی انفرادیت مٹ سکتی ہے۔ مقامی زبانیں، لہجے، اور محاورے پیچھے رہ سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ اے آئی کے اثر سے انسانی گفتگو میں وہ جذباتی خامیاں، بے ساختگی اور الفاظ کی چمک دمک ختم ہو سکتی ہے، جو کسی شخص کی اصل شخصیت کا پتہ دیتی ہیں۔

چیٹ جی پی ٹی نے خاتون کو ’ساڑھے 65 لاکھ‘ کے قرض سے چھٹکارہ دلوا دیا

تحقیق کے ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہمیں اے آئی کے اس ثقافتی اثر کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ اگرچہ فی الحال یہ اثر الفاظ کے چناؤ تک محدود نظر آتا ہے، مگر وقت کے ساتھ ساتھ زبان کی ساخت، اندازِ گفتگو اور خیال آفرینی پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا ہم اے آئی کو اپنی زبان اور ثقافت کا حصہ بننے دینا چاہتے ہیں، یا اپنے مخصوص انداز، لب و لہجے اور جذباتی رنگ کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔

More

Comments
1000 characters