ہماری روایتی معاشرت میں طلاق کو اکثر ناکامی کی علامت سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر عورت کے لیے۔ اسے معاشرتی طعنوں، شرمندگی اور تنہائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حالانکہ طلاق صرف ایک رشتے کا اختتام ہے، زندگی کا نہیں۔ یہ ایک فیصلہ ہے جو کسی کی عزتِ نفس، ذہنی سکون اور خودمختاری کو بچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔
کیونکہ ایسی خواتین کو معاشرتی تنقید، شرمندگی اور طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اب اس خاموشی، خوف اور بے بسی کو خواتین نے ایک نئے زاویے سے توڑا ہے۔ بھارتی ریاست کیرالہ میں پہلا ’ڈائیورس کیمپ‘ کی صورت۔
کیلیکٹ سے تعلق رکھنے والی کانٹینٹ کریئیٹر رافیہ نے بھارتی ریاست کیرالہ کے ضلع ایرناکولم میں ایک منفرد اور انقلابی کیمپ کا انعقاد کیا، جس کا نام رکھا گیا، ’بریک فری سٹوریز‘
میری طلاق میں نہ جھگڑا تھا، نہ بے وفائی، کرن خان کا حیران کن انکشاف
یہ کیمپ خاص طور پر ان خواتین کے لیے منعقد کیا گیا جنہوں نے طلاق، علیحدگی یا بیوگی جیسے کٹھن لمحات کا سامنا کیا، اور اب وہ اپنے ماضی کی تلخیوں کو بوجھ سمجھنے کے بجائے نئی زندگی کا آغاز کرنا چاہتی ہیں۔
مئی 2025ء میں منعقد ہونے والے اس پہلے کیمپ میں 17 خواتین نے شرکت کی۔ انہوں نے ایک ساتھ سفر کیا، پہاڑوں پر کیمپنگ کی، خیموں میں قیام کیا اور دو دن ہنسی، مکالموں اور ذہنی اور جذباتی تعاون سے بھرپور گزارے۔ یہ محض تفریحی سرگرمی نہیں تھی، بلکہ ایک گہرا نفسیاتی اور معاشرتی تجربہ تھا، جہاں ہر خاتون نے خود کو کسی تنقید، ججمنٹ یا شرمندگی کے بغیر مکمل انسان محسوس کیا۔
جوڑے دھیان دیں! خاموش طلاق کا چیختا اشارہ دیتی علامتیں
کیمپ میں شامل صوفیہ نے بتایا کہ ان کی شادی صرف 17 سال کی عمر میں اس لیے کر دی گئی کہ ان کی رنگت سانولی تھی۔ ان کی شادی چند سال بعد ختم ہو گئی اور وہ چھ ماہ تک اینٹی ڈپریسنٹس کے سہارے زندگی گزارتی رہیں۔ لیکن اس کیمپ میں آ کر انہوں نے پہلی بار اپنے اندر سکون اور اعتماد محسوس کیا۔
ان کا کہنا تھا، ’میں خاندانی تقریبات سے کتراتی تھی کیونکہ ہر جگہ طعنے اور سوالات میرا منتظر ہوتے، مگر یہاں مجھے لگا کہ میں اکیلی نہیں ہوں۔‘
جب رافیہ نے انسٹاگرام پر کیمپ کا اعلان کیا تو درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں خواتین نے رابطہ کیا۔ اس پر حوصلہ افزائی کے بعد جون 2025ء میں دوسرا کیمپ بھی منعقد ہوا جس میں مزید سرگرمیاں شامل کی گئیں۔ اب تیسرا کیمپ 19 اور 20 جولائی کو منعقد ہونے جا رہا ہے۔