کینسر کے خلاف اہم پیش رفت کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے سائنسدانوں نے ایم آر این اے ویکسین تیار کر لی جو مدافعتی نظام کو متحرک کرتی ہے۔
کینسر کے علاج کے میدان میں ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، جہاں یونیورسٹی آف فلوریڈا کے سائنسدانوں نے ایک تجرباتی ایم آر این اے (mRNA) ویکسین تیار کی ہے جو جسم کے مدافعتی نظام کو ٹیومرز کے خلاف مؤثر طریقے سے متحرک کرتی ہے۔
آنکھوں کا سادہ ٹیسٹ اگلے 10 سالوں کے دوران ہارٹ اٹیک کی پیش گوئی کر سکتا ہے، تحقیق
یہ تحقیق معروف جریدے نیچر بایومیڈیکل انجینئرنگ میں شائع ہوئی ہے۔ اس تحقیق کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ویکسین کسی مخصوص کینسر یا ٹیومر پروٹین کو ہدف نہیں بناتی، بلکہ یوں مدافعتی نظام کو متحرک کرتی ہے جیسے وہ کسی وائرس سے لڑ رہا ہو۔
ویکسین نے جب امیون چیک پوائنٹ انہیبیٹرز (ایک معروف امیونوتھراپی دوا) کے ساتھ استعمال کی گئی، تو چوہوں میں بہت مضبوط اینٹی ٹیومر ردعمل دیکھا گیا۔
تیزی سے مشہور ہوتے ’نکوٹین پاؤچ‘ نوجوانوں اور بچوں میں زہر پھیلانے لگے
تحقیق میں بتایا گیا کہ ویکسین نے ٹیومرز میں پی ڈی - ایل1 نامی پروٹین کی مقدار بڑھا دی، جس سے وہ مدافعتی علاج کے لیے زیادہ حساس ہو گئے اور جسم نے زیادہ مؤثر ردعمل دیا۔
تحقیقی ٹیم کے سربراہ، بچوں کے کینسر کے ماہر ڈاکٹر ایلیاس سیور نے کہا کہ یہ ایک نیا اور امید افزا طریقہ علاج ہے، جو مستقبل میں کینسر کا علاج جراحی، شعاعوں (ریڈی ایشن) یا کیموتھراپی کے بغیر بھی ممکن بنا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا، ”یہ تحقیق ایک ثبوت ہے کہ ایم آر این اے ویکسینز، چاہے وہ کسی مخصوص کینسر کو ہدف نہ بھی بنائیں، تب بھی وہ مدافعتی نظام کو فعال کر کے کینسر کے خلاف کام کر سکتی ہیں۔“
ڈاکٹر سیور یونیورسٹی آف فلوریڈا کے پریسٹن اے ویلز جونیئر سینٹر برائے برین ٹیومر تھراپی میں آر این اے انجینئرنگ لیبارٹری کے مرکزی محقق ہیں۔
کینسر ویکسینز کی اب تک دو بنیادی حکمت عملیاں رہی ہیں۔
ایسی ویکسین بنائی جائے جو ایک عام کینسر پروٹین کو ہدف بنائے۔
یا مریض کے اپنے کینسر کے مطابق ذاتی ویکسین تیار کی جائے۔
تاہم اس تحقیق نے ایک تیسرا نیا تصور پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر ڈوئین مچل، جو اس مطالعے کے شریک محقق ہیں، کہتے ہیں، ”ہم نے پایا کہ اگر ایک ویکسین صرف مدافعتی نظام کو مضبوط ردعمل دینے کے لیے بنائی جائے، تو وہ مخصوص کینسر کو ہدف بنانے والی ویکسین سے بھی بہتر نتائج دے سکتی ہے۔ یہ تصور ممکنہ طور پر ایسی ’ریڈی میڈ‘ یا ’آف دی شیلف‘ ویکسین کے لیے راستہ ہموار کر سکتا ہے، جو ہر قسم کے مریضوں پر لاگو ہو سکیں۔“
ڈاکٹر سیور کی لیب پہلے ہی گلوبلاسٹوما (دماغ کے ایک مہلک ترین کینسر) کے مریضوں پر تجرباتی ایم آر این اے ویکسین کے کامیاب نتائج شائع کر چکی ہے، جس میں مریض کی اپنی ٹیومر سیلز سے بنائی گئی ذاتی ویکسین نے مدافعتی نظام کو بہت جلد متحرک کر دیا تھا۔
تاہم اس حالیہ تحقیق میں ایک ”جنرلائزڈ“ ایم آر این اے ویکسین استعمال کی گئی، جو نہ کسی مخصوص وائرس کو ہدف بناتی ہے اور نہ کینسر سیلز کی مخصوص جینیاتی تبدیلیوں کو۔ یہ ویکسین عمومی مدافعتی نظام کو متحرک کرنے کے لیے تیار کی گئی تھی اور اسی کا نتیجہ مضبوط اینٹی ٹیومر ردعمل کی صورت میں سامنے آیا۔
اگر مستقبل میں انسانوں پر ہونے والی آزمائشیں بھی ایسے ہی مثبت نتائج دکھائیں، تو یہ تحقیق کینسر کے خلاف ایک یونیورسل (ہر مرض پر قابلِ اطلاق) ویکسین کی تیاری کی راہ ہموار کر سکتی ہے ، خصوصاً ان مریضوں کے لیے جن کے ٹیومر موجودہ علاج کے خلاف مزاحمت دکھاتے ہیں۔