یہ کہانی فلمی لگتی ہے، مگر حقیقت ہے۔ ایک نوجوان، اپنی ماں کی توہین کو دل پر لے کر، دس سال تک ایک شخص کی تلاش میں بھٹکتا رہا۔ اس تلاش نے اسے ایک قاتل میں بدل دیا۔ یہ ہے لکھنؤ کے رہائشی سونو کشیپ کی کہانی، ایک ایسا بیٹا جس نے بدلے کی آگ میں سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔

تقریباً دس سال قبل، ایک شخص منوج نے سونو کشیپ کی ماں کو نہ صرف بے عزت کیا بلکہ اسے مارا پیٹا بھی۔ یہ واقعہ سونو کے دل میں آگ لگا گیا۔ منوج یہ سب کرنے کے بعد علاقے سے فرار ہوگیا، لیکن سونو کی یادداشت اور انتقام کی آگ ٹھنڈی نہ ہو سکی۔

مصطفیٰ عامر قتل کیس کے مرکزی ملزم ارمغان کا مقدمے کی نقول لینے سے انکار

دس سالہ تلاش

سونو نے منوج کو ڈھونڈنے کا عزم کیا۔ وقت گزرتا رہا، مگر سونو کی آنکھیں اپنے دشمن کی تلاش میں رہیں۔ آخر کار، تین ماہ قبل، اسے منوج لکھنؤ کے منشی پُلِیا علاقے میں نظر آگیا۔ بس وہی لمحہ تھا جب سونو نے انتقام کے منصوبے پر عمل کا آغاز کیا۔

سونو نے نہایت سوچ سمجھ کر منصوبہ بنایا۔ اس نے منوج کی روزمرہ کی سرگرمیوں پر نظر رکھی، اس کی دکان کے اوقات نوٹ کیے، اور پھر چار دوستوں، رنجیت، عادل، سَلَمو، اور رحمت علی کو اس سازش میں شامل کر لیا۔ انہیں اس قتل کے بدلے ایک دھوم دھام والی پارٹی کا لالچ دیا گیا۔

22 مئی کو، منوج جب دکان بند کر کے واپس جا رہا تھا اور اکیلا تھا، تو سونو اور اس کے ساتھیوں نے اس پر لوہے کی سلاخوں سے حملہ کر دیا۔ منوج شدید زخمی حالت میں اسپتال پہنچا، مگر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔

قتل کے بعد پولیس تفتیش کر رہی تھی، لیکن ان کے پاس قاتلوں کا کوئی پکا سراغ نہ تھا۔ اگرچہ کچھ مشتبہ افراد سی سی ٹی وی میں نظر آئے، لیکن ان کی شناخت ممکن نہ ہو سکی۔

بلوچستان واقعہ: خاتون اور مرد کو کتنی گولیاں ماری گئیں، پوسٹ مارٹم رپورٹ سامنے آگئی

ادھر سونو نے اپنے وعدے کے مطابق ایک زبردست شراب پارٹی دی۔ اس پارٹی کی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ ہو گئیں۔ پولیس نے جب ان تصاویر کو سی سی ٹی وی فوٹیج سے ملایا تو ایک مجرم کو نارنجی رنگ کی وہی ٹی شرٹ پہنے دیکھا، جو قتل کے دن بھی پہنی گئی تھی۔

بس، پھر کیا تھا؟ سوشل میڈیا پروفائلز، تصاویر اور مزید شواہد کی مدد سے پولیس نے پانچوں ملزمان کو گرفتار کر لیا۔ سونو کشیپ اور اس کے چاروں دوست اب جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔

More

Comments
1000 characters