ہم میں سے اکثر نے یہ بارہا سنا ہے، ’میٹھی چیزیں کینسر کو بڑھا دیتی ہیں‘، ’چینی نقصان دہ ہے‘، ’شوگر ہی سب بیماریوں کی جڑ ہے‘۔ یہ باتیں کافی حد تک درست ہیں، لیکن کیا کبھی آپ نے سوچا کہ اگر یہی مٹھاس ایک دن کینسر کا علاج بن جائے تو؟ حیران کن لگتا ہے نا؟ لیکن سائنس کا کمال یہی ہے، وہ فطرت میں چھپی حکمتوں کو تلاش کر کے حیرت انگیز سچائیوں کو سامنے لاتا ہے۔

ایسا ہی کچھ ہوا جاپان کی ہیروشیما یونیورسٹی میں، جہاں ماہرین نے ’اسٹیویا‘ جوکہ ایک قدرتی مٹھاس ہے، کو خمیر شدہ شکل میں استعمال کر کے ایسی طاقتور اینٹی کینسر خاصیت دریافت کی ہے جو لبلبے کے خطرناک ترین کینسر کو بھی شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہے، وہ بھی بغیر صحت مند خلیات کو نقصان پہنچائے۔ گویا اب ’مٹھاس‘ صرف ذائقہ ہی نہیں دیتی، بلکہ صحت مند زندگی کے لئے بھی مددگار ہے۔

’اسٹیویا‘ دراصل ایک قدرتی پودا ہے جس کے پتوں سے حاصل ہونے والی مٹھاس چینی سے کئی گنا زیادہ میٹھی، مگر بغیر کیلوریز کے ہوتی ہے۔ اسے ذیابیطس کے مریض اور وزن کم کرنے والے افراد چینی کے صحت مند متبادل کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ وہی اسٹیویا، جو شوگر کا صحت بخش متبادل سمجھا جاتا ہے، اب سائنسدانوں کی ایک حیرت انگیز دریافت کا حصہ بن چکی ہے؟

کینسر کے مریضوں کے لیے امید کی کرن: کیمو تھراپی کے دوران بال جھڑنے سے بچاؤ کا نیا طریقہ دریافت

جی ہاں! جاپان کی ہیروشیما یونیورسٹی میں ہونے والی ایک جدید تحقیق نے یہ ظاہر کیا ہے کہ جب اسٹیویا کے پتوں کو خاص قسم کے بیکٹیریا کے ساتھ خمیر (ferment) کیا جاتا ہے، تو وہ ایک طاقتور اینٹی کینسر مرکب میں تبدیل ہو جاتا ہے، جو خاص طور پر مہلک ترین بیماریوں میں سے ایک ’لبلبے کے کینسر‘ (Pancreatic Cancer) کے خلیات کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، وہ بھی بغیر صحت مند خلیات کو نقصان پہنچائے۔

پرانے تصورات کو چیلنج کرتی نئی تحقیق

عام طور پر اسٹیویا کو زیرو کیلوریز والی قدرتی مٹھاس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، لیکن ہیروشیما یونیورسٹی کے محققین نے جب اس کا اخراج شدہ عرق ’لییکٹوباسیلس پلانٹیرم SN13T‘ نامی بیکٹیریا سے حاصل شدہ خمیر کے ساتھ پروسیس کیا، تو انہیں ایک حیران کن نتیجہ ملا۔ ’خمیر شدہ اسٹیویا‘ نہ صرف کینسر کے خلیات کو مارنے لگا بلکہ صحت مند گردوں کے خلیات کو بھی محفوظ رکھا، جو کہ موجودہ کینسر کے علاجوں میں ایک نایاب خوبی ہے۔

کینسر کے خلاف ایک نیا ہتھیار

تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ خمیر شدہ اسٹیویا میں ایک نیا مرکب پیدا ہوا جسے ’کلورو جینک ایسڈ میتھائل ایسٹر(CAME) کہا جاتا ہے۔ یہ مرکب اسٹیویا میں پہلے موجود کلورو جینک ایسڈ سے کئی گنا زیادہ مؤثر ثابت ہوا، جو کینسر کے خلیات میں apoptosis یعنی خلیاتی موت کو فعال کر کے اُنہیں ختم کرنے میں مدد دیتا ہے۔

دنیا بھر میں 50 سال سے کم عمر افراد میں کینسر کے کیسز میں نمایاں اضافہ

تحقیق کا سائنسی پس منظر

ہیروشیما یونیورسٹی کے پروفیسرنارندالائی دانشی تسوڈول اور پروفیسر ماسانوری سوگی یاما کی سربراہی میں کی گئی اس تحقیق کو معروف سائنسی جریدے انٹرنیشنل جرنل آف مالیکیولر سائنسز میں شائع کیا گیا۔ اس ٹیم نے مختلف پودوں، پھولوں، سبزیوں اور پھلوں سے 1300 سے زائد لَب بیکٹیریا (لیکٹک ایسڈ بیکٹریا) کی اقسام کو جانچا اور سب سے مؤثر بیکٹیریا کا انتخاب کیا جو اسٹیویا کو ایک ”قدرتی اینٹی کینسر دوا“ میں تبدیل کر سکتا تھا۔

تحقیق کی اہمیت، کیوں ہے یہ اہم؟

لبلبے کا کینسر دنیا بھر میں سب سے زیادہ خطرناک اقسام میں شمار کیا جاتا ہے، جس کا پانچ سالہ بقاء کا تناسب صرف 10 فیصد سے بھی کم ہے۔ چونکہ یہ مرض اکثر دیر سے تشخیص ہوتا ہے اور موجودہ علاج محدود اثر رکھتے ہیں، اس لیے قدرتی ذرائع سے بننے والی نئی دوائیں اور طریقہ کار ایک بڑی اُمید بن سکتے ہیں۔

انجلین ملک کا کینسر کےعلاج کے لیے ترکیہ منتقل ہونے کا اعلان

اب محققین اس مرکب کو چوہوں پر آزمانے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ پورے جسم میں اس کے اثرات کو جانچا جا سکے۔ اگر یہ تجربہ کامیاب رہا تو یہ طریقہ مستقبل میں کینسر کے خلاف نئی پروبائیوٹک بیسڈ دوا کی بنیاد بن سکتا ہے، جو محفوظ، قدرتی اور کم سائیڈ ایفیکٹس والی ہوگی اور ایک مہلک بیماری کے خلاف طاقتور ہتھیار بن سکتی ہے۔

حوالہ: یہ تحقیق ہیروشیما یونیورسٹی، جاپان کے ’گریجویٹ سکول آف بائیو میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز‘ میں کی گئی، اور مکمل مقالہ انٹر نیشنل جرنل آف مالیکیولر سائنسز میں شائع ہوا۔

More

Comments
1000 characters