آلو دنیا کی اہم سبزی شمار کی جاتی ہے جو نہ صرف مختلف پکوانوں کا حصہ ہے بلکہ اسے چھوٹے بڑے سب شوق سے کھاتے ہیں۔ آلو کو ہم مختلف طریقوں سے پکاتے ہیں بیک کرنا، روسٹ کرنا، اُبالنا، بھاپ میں پکانا اور فرائی کرنا۔

آلو میں وٹامن سی، پوٹاشیم، فائبر، اور ریزسٹنٹ اسٹارچ ہوتا ہے جو ہاضمہ کے لیے فائدہ مند ہے۔ یہ قدرتی طور پر گلوٹین فری، کم چکنائی والا اور توانائی بخش غذا ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں آلو کیسے وجود میں آئے۔

آلو کے ارتقا کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ تقریباً 10 ہزار سال پہلے جنوبی امریکہ کے اینڈیز کے پہاڑوں میں آلو کو پہلی بار کاشت کیا گیا تھااور پھر آہستہ آہستہ یہ پوری دنیا میں پھیلتا چلا گیا۔ لیکن آلو کی ارتقائی ابتدا ہمیشہ سے ایک معمہ بنی ہوئی تھی کیونکہ پودوں کے نشانات زمین میں بہت کم ملتے ہیں۔ اب نئی تحقیق نے اس کا راز تلاش کرلیا ہے۔

ٹماٹر اور آلو کا خاص ملاپ

حال ہی میں سائنسدانوں نے ایک حیرت انگیز دریافت کی ہے: چین کی اکیڈمی آف زرعی سائنسز کے محققین نے 450 کاشت شدہ آلو اور 56 جنگلی آلو کی اقسام کے جینوم کا تجزیہ کیا۔

اس مطالعے سے یہ بات سامنے آئی کہ تقریباً 9 لاکھ سال پہلے جنوبی امریکا میں ایک جنگلی ٹماٹر اور ایک آلو جیسے پودے (جسے ایٹوبیروسوم کہتے ہیں) کے درمیان قدرتی ملاپ ہوا تھا۔ یہ ملاپ ایک نئے پودے کی پیدائش کا باعث بنا، جو ٹیوبرز یعنی زمین کے نیچے اگنے والے گٹھلی نما حصے پیدا کرنے لگا۔ یہی ٹیوبرز آلو کی سب سے خاص بات ہیں، کیونکہ انہی میں غذائی اجزاء جمع ہوتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق، یہ قدیم جینیاتی ملاپ (ہائبرڈائزیشن) اس بات کا سبب بنا کہ ابتدائی آلو کے پودے میں ایک منفرد ساخت یعنی ”ٹیوبر“نمودار ہوئی، جو زمین کے نیچے بننے والا ایک موٹا اور غذائی اجزاء سے بھرپور حصہ ہوتا ہے۔

جبکہ ٹماٹر کے پودے میں قابلِ خوراک حصہ اس کا پھل ہوتا ہے، وہیں آلو کی اصل اہمیت اسی زیرِ زمین پیدا ہونے والے ٹیوبر میں ہے۔ اس تحقیق میں ٹیوبر کی تشکیل سے متعلق دو اہم جینز کی بھی نشاندہی کی گئی، جو آلو کی ارتقائی تاریخ اور زرعی اہمیت کو سمجھنے میں ایک نیا در وا کرتی ہے۔

آلو کی جینیاتی کہانی

سائنسدانوں نے بہت سے آلو اور جنگلی آلو کے جینز کا تجزیہ کیا۔ انہوں نے معلوم کیا کہ آلو کے بننے میں دو خاص جینز شامل ہوتے ہیں ایک جین ٹماٹر سے آیا جو ٹیوبربنانے کا حکم دیتا ہے، اور دوسرا جین ایٹوبیروسوم سے آیا جو ٹیوبر کی نشوونما کو کنٹرول کرتا ہے۔

اگر یہ دونوں جینز ساتھ نہ آتے، تو شاید آلو کبھی زمین کے نیچے گٹھلیاں نہ بنا پاتا۔ان دونوں پودوں کا مشترکہ جد آج سے تقریباً 14 لاکھ سال پہلے تھا، اور تقریباً 9لاکھ سال قبل ان دونوں کی قدرتی ملاپ نے نیا جینیاتی امتزاج پیدا کیا جس سے ٹیوبر بننے لگا۔

## اینڈیز کے سرد پہاڑ اور آلو کی بقا

یہ نیا پودا اسی وقت آیا جب اینڈیز کے پہاڑ تیزی سے بڑھ رہے تھے اور وہاں کا موسم بہت سرد اور خشک ہو گیا تھا۔ ٹیوبرزکی وجہ سے آلو سرد موسم میں بھی زندہ رہ سکا کیونکہ ٹیوبرز میں غذائی ذخیرہ ہوتا ہے اور یہ پودے کو بغیر بیج کے بھی بڑھنے دیتے ہیں۔

ہوانگ کے مطابق، ”ٹیوبر غذائی اجزاء کو سرد موسم میں محفوظ رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اور یہ پودے کو بغیر جنسی تولید کے افزائش کی صلاحیت بھی دیتا ہے، جو سرد علاقوں میں زرخیزی کی کمی جیسے مسئلے کا حل ہے۔ انہی خوبیوں کی بدولت آلو کے پودے نے نہ صرف بقا پائی بلکہ تیزی سے پھیلاؤ بھی ممکن ہوا۔“

آلو آج اور کل

آج کل دنیا میں تقریبا 5000 آلو کی اقسام پائی جاتی ہیں اور یہ چاول اور گندم کے بعد دنیا کی سب سے اہم ترین فصل ہے۔ اس تحقیق سے سائنسدان بہتر آلو اگانے کے طریقے سمجھ سکیں گے جو بیماریوں اور موسمی تبدیلیوں سے لڑ سکیں۔

یہ بھی ممکن ہے کہ آئندہ ایسے آلو پیدا کیے جائیں جو بیج سے جلد اگ سکیں، کیونکہ آج کل زیادہ تر آلو ٹکڑوں سے اگائے جاتے ہیں۔ جس سے وہ ایک جیسے جینیاتی ہوتے ہیں اور بیماریوں کا مقابلہ کم کر پاتے ہیں۔

آلو، ٹماٹر اور ایٹوبیروسوم سب ایک ہی خاندان کے پودے ہیں، اس لیے ان میں بہت سی چیزیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ ٹماٹر کا کھانے والا حصہ اس کا پھل ہے، جبکہ آلو کا سب سے خاص حصہ اس کا ٹیوبر یعنی وہ گٹھلی ہوتی ہے جو زمین کے اندر اگتی ہے۔

آلو کی یہ خاص خصوصیت، یعنی ٹیوبرزبنانا، ایک خاص موقع پر قدرتی ملاپ تھا جو اس کی بقا اور ترقی کا سبب بنا۔ یہ آج نہ صرف ہمارے کھانوں کی شان ہے بلکہ مستقبل میں بھی ہمیں بہتر اور زیادہ معیاری آلو پیدا کرنے میں مدد دے گا۔

More

Comments
1000 characters