جرمنی کا سب سے پرانا اور بڑا ہم جنس پرستوں کا ڈانس کلب ’شوز‘ (SchwuZ)، جو تقریباً 50 سال سے برلن کی راتوں کو روشن کر رہا تھا، اب دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہے۔ کلب نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ اس نے مالی مشکلات کی وجہ سے دیوالیہ ہونے کی درخواست دے دی ہے۔
شوز صرف ایک تفریحی مقام نہیں بلکہ برلن کی ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی کے لیے ایک ’دوسرا گھر‘ تھا۔ یہاں لوگ اپنی پہچان، آزادی، اور نئی زندگی کی جھلک پاتے تھے۔ اس کلب نے 1979 میں ’کرسٹوفر اسٹریٹ ڈے‘ پریڈ اور ایک مشہور ہم جنس پرست میگزین ’زیگے زوئلے‘ (Siegessaule) کے آغاز میں بھی کردار ادا کیا تھا۔
کلب کی بندش کی کئی وجوہات سامنے آئیں ہیں جن میں مہنگائی میں اضافہ، بجلی اور کرائے کے بڑھتے اخراجات، ڈیٹنگ ایپس کے بڑھتے رجحان نے لوگوں کو گھروں تک محدود کر دیا ہے، پارٹی کلچر میں تبدیلی، پرانی موسیقی اور مہنگی ٹکٹیں بھی ناراضی کی وجہ بنیں۔
ہم جنس پرستی کیخلاف قانون پر روس میں پہلی بار گرفتاریاں
رواں سال کلب کو ہر مہینے 30 ہزار سے 60 ہزار یورو کے خسارے کا سامنا رہا۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مئی میں کلب کی انتظامیہ نے اپنے اوقاتِ کار کم کردیے، ملازمین کو فارغ کیا، مالی مدد کی اپیل کی اور فنڈنگ مہم شروع کی۔ لیکن یہ کوشش بھی ناکام رہی، کیونکہ 1.5 لاکھ یورو کے ہدف میں صرف 3ہزر یورو ہی جمع ہو سکے۔
شوز(SchwuZ) کے علاوہ بھی کئی مشہور کلب بند ہو چکے ہیں یا بند ہونے کے قریب ہیں،
’بشے کلب‘ (Busche Club)، جو 1988 میں مشرقی برلن میں قائم ہوا تھا، اب بند ہو چکا ہے۔
’واٹر گیٹ‘ (Watergate)، ایک مشہور ندی کنارے کا کلب، نئے سال کی رات ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔
ولڈے ریناٹے (Wilde Renate) کلب نے بھی سال کے آخر تک بند ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔
اے 100 موٹروے کی توسیع کے منصوبے نے بھی کئی نائٹ کلبوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس کے خلاف مظاہرے بھی ہو رہے ہیں تاکہ حکومت اس منصوبے کو روکے۔
روس میں ”ہم جنس پرست“ نظر آنے والے 7 افراد پر جرمانہ عائد
اگرچہ مغربی معاشروں میں ایسے نائٹ کلبز کو آزادی، شناخت اور تفریح کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ رجحان کئی معاشرتی اور نفسیاتی مسائل کو بھی جنم دے رہا ہے۔ نوجوان نسل کا رات بھر کی پارٹیوں، نشہ آور اشیاء کے استعمال اور عارضی تعلقات میں الجھنا ایک تشویشناک پہلو ہے۔
ایسے مقامات بعض اوقات خاندانی نظام، روحانی سکون اور معاشرتی توازن کو متاثر کرتے ہیں۔ آزادی کی آڑ میں اگر انسان اپنی حدود اور ذمہ داریوں کو بھول جائے، تو وہ آزادی بھی ایک قسم کی غلامی بن جاتی ہے، یعنی نفس کی غلامی۔