بلیو وہیلز کی پراسرار خاموشی پر سائنسدانوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔
دنیا بھر کے محققین نے اس سمندری مخلوق کی آوازوں میں کمی محسوس کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
نیشنل جیوگرافک کی رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے زیرِ سمندر ہیڈروفونز کا استعمال کرتے ہوئے آبی مخلوق کی آوازوں کو ریکارڈ کیا تاکہ انسان کی سرگرمیوں کا وہیلز پر اثرات کا مطالعہ کیا جا سکے۔
پی ایل او ایس ون جرنل میں شائع تحقیق میں انکشاف ہوا کہ گرمی کی لہریں کئی سالوں سے پریشان کن تبدیلیاں پیدا کر رہی ہیں۔ Toxic Algae (ایک قسم کا زہریلا پودا) وہیلز کے لیے خوراک کے ذرائع کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
مونٹری بے ایکویریم ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (Monterey Bay Aquarium Research Institute) کے بائیولوجیکل اوشین گرافیر جان رائین نے نیشنل جیوگرافک کو بتایا کہ یہ سمندری مخلوق میں سب سے زیادہ پھیلنے والے زہر کا شکار ہونے کا واقعہ تھا جس کا ریکارڈ موجود ہے۔ یہ وہیلز کے لیے بہت مشکل وقت تھا۔
وہیل مچھلیوں کے گانوں کا انسانوں سے کیا تعلق ہے؟ جان کر سائنسدان حیران رہ گئے
اس تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ بیلو وہیلز کی آوازوں میں تقریباً 40 فیصد کمی آ چکی ہے کیونکہ ان کی پسندیدہ خوراک کرل (Krill) اور اینکووی (Anchovy) ہیٹ ویو کے باعث کافی حد تک کم ہوچکی ہیں۔ کرل اور اینکووی سمندری مخلوقات میں شامل ہوتی ہیں۔
جان رائین نے بتایا کہ جب آپ اس کو تفصیل سے دیکھیں، تو یہ ایسا ہے جیسے آپ بھوک سے بلبلاتے ہوئے گانا گانے کی کوشش کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ مچھلیاں سارا وقت خوراک تلاش کرنے میں صرف تھیں۔
دنیا کی سب سے بڑی اور قدیم شارک اپنا پیٹ بھرنے کیلئے کیا کھاتی تھی؟
چھ سالوں تک، رائین نے مرکزی کیلیفورنیا کرنٹ ایکو سسٹم میں وہیل کے گانے کے موسم اور سالانہ نمونوں کو ٹریک کیا۔ جولائی 2015 میں ریکارڈنگز کا آغاز کیا گیا، جس سے یہ بات سامنے آئی کہ ہَمپ بیک وہیلز کی آواز میں تو استحکام رہا، لیکن بلیو اور فن وہیلز کی آواز سنائی نہیں دی۔
تحقیق کے مطابق اس کی بنیادی وجہ ان کے اہم شکار، کرل، کا کم ہونا ہے۔ ہَمپ بیک وہیلز شکار کی دستیابی میں تبدیلیوں کے ساتھ اپنے آپ کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، لیکن بلیو اور فن وہیلز تقریباً مکمل طور پر کرل پر انحصار کرتی ہیں۔ جب کرل کی آبادی ختم ہوئی، تو وہیلز کی آوازیں بھی ختم ہو گئیں۔