دنیا بھر میں چڑیا گھر جانوروں کی حفاظت، تعلیم اور تحقیق کا مرکز سمجھے جاتے ہیں، لیکن ڈنمارک کے آلبرگ چڑیا گھر نے حال ہی میں ایک ایسی اپیل کی جس نے سوشل میڈیا پر ہلچل مچا دی۔
چڑیا گھر نے ایک فیس بک پوسٹ میں عوام سے گزارش کی کہ اگر ان کے پاس کوئی ایسا پالتو جانور ہے جس کی مزید دیکھ بھال ممکن نہیں رہی، تو وہ اسے چڑیا گھر کو ’عطیہ‘ کر سکتے ہیں، جہاں ان جانوروں کو خوراک کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
جی ہاں، یہ پڑھ کر بہت سے لوگوں کو دھچکا لگا۔ پالتو جانور، جنہیں اکثر گھر کے فرد کی حیثیت حاصل ہوتی ہے، وہ چڑیا گھر کے شکاری جانوروں کی خوراک بن جائیں، یہ تصور ہی بہت سوں کے لیے ناقابل قبول تھا۔
’میرے اتنا قریب مت آؤ میں تمہیں برباد کردوں گا‘؛ ویڈیو بنانے والے شخص کو شیر کی وارننگ
چڑیا گھر کی انتظامیہ کا مؤقف تھا کہ یہ عمل نہ صرف قدرتی خوراک مہیا کرتا ہے بلکہ کسی جانور کو ضائع ہونے سے بچانے کا ایک ’قدرتی‘ طریقہ بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح شکاری جانوروں کو وہ خوراک دی جا سکتی ہے جو ان کی فطرت کے عین مطابق ہے، اور اس عمل سے جانوروں کی جسمانی و ذہنی صحت پر بھی مثبت اثر پڑتا ہے۔
لیکن جیسے ہی یہ پوسٹ سامنے آئی، سوشل میڈیا پر تنقید کا طوفان آ گیا۔ کچھ صارفین نے اس عمل کو ’غیر انسانی‘ قرار دیا، تو کچھ نے اسے ’ظالمانہ اور غیر حساس‘ قرار دیا۔ صورتحال یہاں تک پہنچی کہ چڑیا گھر کو فیس بک پوسٹ پر تبصرے بند کرنے پڑے۔ انتظامیہ نے وضاحت دی کہ وہ تنقید کو سمجھتے ہیں، لیکن نفرت انگیز زبان یا بدتمیزی کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی جانوروں کی خوراک سے متعلق عوام کو شامل کرنے کے منفرد انداز دیکھے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر، ٹورنٹو (کینیڈا) کے ایک چڑیا گھر نے ویلنٹائنز ڈے پر عوام کو موقع دیا کہ وہ ایک لال بیگ کو اپنے سابق محبوب کا نام دے کر شکاری جانوروں کو ’تحفہ‘ کریں، اور یہ مہم کافی مقبول بھی ہوئی! ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بات کا اندازبہت کچھ تبدیل کردیتا ہے یہاں تک کہ جزبات بھی۔
لاہور: فارم ہاؤس میں شیر کا حملہ،بچوں سمیت 3 افراد زخمی، مالک کے خلاف مقدمہ درج
یہ تمام صورتحال ایک بار پھر ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ انسان اور جانوروں کے رشتے کی نوعیت کتنی پیچیدہ اور جذباتی ہو سکتی ہے۔ کیا جانور واقعی صرف خوراک یا تفریح کا ذریعہ ہیں، یا ہمیں ان کے ساتھ اپنے تعلق کو نئے انداز سے دیکھنے کی ضرورت ہے؟