پاکستان شوبز انڈسٹری کی سینئر اور ورسٹائل فنکارہ بشریٰ انصاری کولتا منگیشکر کی ساڑھی اور امیتابھ بچن کے موزے سے متعلق اپنے بیان پر شدید عوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر کئی صارفین نے اس بیان کو محض سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔
حال ہی میں، بشریٰ انصاری اپنی بہن اسماعباس کے ساتھ ایک نجی چینل کے پوڈکاسٹ میں شریک ہوئیں جہاں انہوں نے بھارتی لیجنڈ گلوکارہ لتا منگیشکر سے عقیدت کا اظہار کیا۔ تاہم، امیتابھ بچن کے موزے سے متعلق ان کی انوکھی خواہش نے ایک نئی بحث کو جنم دیا۔
’اکیلی رہتی، دو دن پرانا کھانا بھی کھانا پڑتا‘: دیا مغل نے کراچی میں کڑا وقت کیسے گزارا؟
پروگرام کے دوران، بشریٰ انصاری نے بتایا کہ انہوں نے ماضی میں میڈم نور جہاں کی صاحبزادی سے ان کی والدہ کی ساڑھی مانگی تھی، جس پر انہیں ایک نہیں بلکہ دو ساڑھیاں تحفے میں ملیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے ایک ساڑھی پر کچھ مٹی لگی ہوئی تھی، جسے انہوں نے احتیاط سے پیک کر کے سنبھال کر رکھ دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ پہلے بھی نورجہاں کی ساڑھی پہن چکی ہیں، جس پر انہیں لوگوں سے خوب تعریف سننے کو ملی۔
ہانیہ ، عاصم کے مبینہ رومانس پر میرب کے بھائی کا ردعمل سامنے آگیا
بشریٰ انصاری نے انکشاف کیا کہ ایک بار ان کے مداح اور دوست سدیش نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے ابھی تک لتا منگیشکر کی ساڑھی کیوں نہیں پہنی۔
اس پر بشریٰ انصاری نے کہا:“میں نے سدیش سے کہا کہ مجھے بڑی خوشی ہوگی اگر کوئی لتا منگیشکر کی ساڑھی لا دے۔ لیکن پھر ان کا انتقال ہو گیا۔ تو میں نے سدیش سے کہا: ’اگر لتا جی کی ساڑھی نہ سہی، تو امیتابھ بچن کا ایک موزہ ہی لا دینا، جوڑی میں سے ایک ہی کافی ہوگا۔‘
سدیش نے حیرت سے پوچھا: ’آپ کیا بات کر رہی ہیں، بشریٰ انصاری جی؟‘ لیکن پھر وہ مان گئے کہ ڈھونڈیں گے۔“
ان کے اس بیان پر سوشل میڈیا پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ بہت سے صارفین نے اسے غیر ضروری اور غیر موزوں قرار دیا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب پاکستان اور بھارت کے تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں۔
چند تبصرے درج ذیل ہیں۔
”شرم آنی چاہیے، کیا وہ مسلمان ہیں؟ ان لوگوں کو شوبز کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔“
”افسوس ہے کہ ہمارے سینئرز ایسے لوگوں کو اپنا رول ماڈل بنا رہے ہیں۔ وہ تو مسلمان بھی نہیں ہیں، ان سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟ اللہ سب کو ہدایت دے۔“
”واقعی؟ فنکاروں کو کچھ بھی کہنے سے پہلے کم از کم دو منٹ سوچنا چاہیے، کیونکہ وہ لاکھوں لوگوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔“